قوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، وزیر خارجہ نے متاثرین سیلاب کی مشکلات سے عالمی برادری کو آگاہ کیا، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ملک میں سیاسی استحکام کیلئے کوشش کی ہے۔ ہفتہ کو یہاں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شازیہ مری نے کہا کہ کل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسمبلی کے فلور پر اپنی بجٹ تقریر میں کئی اہم باتیں کیں، اس میں سے سرفہرست بات یہ ہے کہ گزشتہ برس جو تباہ کن سیلاب آیا تھا اس کے نتیجہ میں ہونے والی تباہ کاری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب زدگان کی بحالی ، تعمیر نو کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری نے بہت سے اہم معاملات پر گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کی کاوشوں کے باعث آئندہ مالی سال کے بجٹ میں فنڈ کی فراہمی پر بھی بات کی ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران ایسا تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ شاید پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان بعض مسائل ہیں یا وہ ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثرات غلط ہیں ہمارا بنیادی ایشو متاثرین سیلاب کی بحالی اور تعمیر نو تھا اور بلاول بھٹو زرداری نے کل اسمبلی میں اپنی تقریر میں اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے کہ کس طرح ملک کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑا اور کیسے 33 ملین افراد بے گھر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی نے ہر سطح پر آواز اٹھائی ، اندرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کو اجاگر کیا گیا۔ اسی طرح جنیوا میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر باقاعدہ اپیل کی گئی جس کے ذریعے فنڈز اکٹھے کئے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان کا دورہ کیا اور ایک ایسے وقت میں وہ پاکستان آئے جب اقوام متحدہ کا ایک انتہائی اہم اجلاس چل رہا تھا جس میں ان کی شرکت بہت ضروری ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب کی صورتحال تھی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل فوراً پاکستان پہنچے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کو ملک کے تمام علاقے دیکھائے اور مشکلات کے باوجود ہم سیکرٹری جنرل کو ان علاقوں میں لے گئے اور ان کو شدید تکلیف کے حالات دیکھائے۔ انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل نے تمام حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ متاثرین سیلاب کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کو آگاہ کرنے کیلئے وزیراعظم محمد شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین و وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے دنیا کے ہر ملک کی توجہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب کی صورتحال پر مرکوز کرائی۔ انہوں نے اپنے مسائل سے لوگوں کو آگاہ کیا اور دنیا بھر میں سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے اپیل کی جس پر ہمیں مدد بھی ملی۔ شازیہ مری نے کہا کہ وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں اس امداد کا بھی ذکر کیا ،9 ارب ڈالر کی امداد کا تذکرہ کیا پھر انہوں نے عالمی برادری کے ان وعدوں کا بھی ذکر کیا جو سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے حکومت پاکستان کے اقدامات کا بھی تذکرہ کیا۔
وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ سیلاب زدگان کے لئے ملنے والی امداد سے متاثرین کی بحالی کو یقینی بنایا جائے گا اور ہم اس وقت تک ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے جب تک بحالی کے وعدے پورے نہیں ہو جاتے۔ انہوں نے کہا کہ کل بلاول بھٹو زرداری نے وہ تمام چیزیں دوہرائی ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب حکومت کی ذمہ داری ملتی ہے تو ذمہ داری کم نہیں ہوتی بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد عوام کی نظریں ہماری طرف ہوتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آج جو جماعتیں مل کر بیٹھی ہیں وہ ملک کی سالمیت اور پاکستان میں امن کیلئے اکٹھی بیٹھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ نظریاتی اختلاف ہیں لیکن آج ہم اتحادی حکومت میں ان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے تلخ تجربات بھی رہے ہیں لیکن میثاق جمہوریت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو، ملک میں جمہوریت مضبوط ہو، ملک میں سیاسی ڈائیلاگ کبھی بند نہ ہو یہ ہماری کوشش ہے جو ہم کرتے رہیں گے اور اسی کوشش کو آگے بڑھاتے ہوئے جب ملک میں آرٹیکل 95 کے تحت پہلی مرتبہ آئینی طریقے سے ایک نا اہل شخص کو وزیراعظم کی کرسی سے ہٹایا گیا یہ طریقہ آئین میں ہمیشہ سے موجود ہے لیکن پہلے کبھی کامیاب نہیں ہوا تھا ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئینی طریقے سے اقتدار سے فارغ ہونے والا شخص جو وزیراعظم کی کرسی پر ساری زندگی بیٹھنا چاہتا تھا اس سے یہ برداشت نہ ہوا کہ اس کو کیونکہ ہٹایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکومت بنائی۔ اس سے قبل ہمارا کوئی منصوبہ نہیں تھا کہ ہم نے حکومت میں آنا ہے یا ہم اقتدار کے متمنی تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ حکومت کے دور اقتدار کے چار سالوں کے دوران عوام کے پسنے اور ان کے چیخنے چلانے کے بعد بھی ان کی شنوائی نہیں تھی، مہنگائی بڑھ رہی تھی، غلط منصوبہ بندی کی جا رہی تھی، غلط پالیسیز اپنائی جا رہی تھیں، ملک میں تقسیم کو بڑھایاجا رہا تھا۔ اپنے سیاسی مخالفین کو بار بار گریبان سے پکڑ کر جیلوں میں بند کرنے کی باتیں ہی نہیں کی جاتی تھیں بلکہ ان کو جیلوں میں پھینکا جا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی انتقام کا پارہ عروج پر تھا اور عوام کی تکالیف بھی عروج پر تھیں۔ لہٰذا ایسے وقت میں پارلیمنٹ کے ذریعے عدم اعتماد جب قومی اسمبلی میں پاس ہونے لگتا ہے تو وہ شخص کہتا ہے کہ قومی اسمبلی کو توڑ دو، یہی باتیں کل بلاول بھٹو نے اسمبلی کے فلور پر کیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تو پارلیمنٹ کا بوری بسترہ لپیٹ دیا تھا ۔ اپنی طرف سے اس نے پارلیمان پر تالا لگا دیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ مخالفین کو غدار قرار دے دو جو مجھے میرے عہدے سے ہٹا رہے ہیں جبکہ ان کی اقتدار سے علیحدگی کا عمل آئینی طریقے سے کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے اسمبلی سے اپنے خطاب میں کل یہ بھی بتایا کہ ایک جمہوری ملک جس کی مثالیں دی جاتی ہیںِ، امریکہ میں بھی ایک فاشسٹ حکمران جو بدترین پاپولزم کو ، نفرت انگیز پاپولزم کو فروغ دیتا نظر آیا، 6 جنوری کو جس طرح اس طرح اپنی پارلیمان پر ، حساس اداروں پر حملے کی کال دی تو کسی طریقے سے امریکہ جیسے ایک جمہوری ملک میں جہاں 200 سال سے زیادہ عرصے سے جمہوریت کا تسلسل جاری ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس پر امریکی حکومت کو ایسے اقدامات کرنے پڑے جو ان کے ملک میں امن کی بحالی کیلئے ضروری تھے جو ان کے معاشی استحکام کیلئے ضروری تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر بلاک کیا گیا تاکہ وہ شرانگیز پروپیگنڈا نہ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی وہی ساری کہانی دہرائی گئی وہ سب کچھ ہوا ۔ گزشتہ سال 25 مئی کو بھی ملک میں آگ لگائی گئی ۔ حتیٰ تک کہ پودے بھی جلا دیئے گئے، پودوں نے آپ کا کیا بگاڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ نئے پودے لگائے جائیں تاکہ ملک میں سبز انقلاب آئے ، ہمیں گرین اکانومی کی طرف جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو وہ شخص اپنے اندھے پیرو کاروں کو درخت جلانے کیلئے بھڑکا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بلا دنیا میں ایسا کوئی بے حس شخص ہو سکتا ہے جو اس طرح کی کارروائیاں کراتا رہے۔ شازیہ مری نے مزید کہا کہ حکومت نے 25 مئی کے بعد بردباری نہیں چھوڑی اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے صبر کا دامن نہیں چھوڑا گیا لیکن پھر 9 اور 10 مئی کو دن آتا ہے ۔ ان واقعات میں تمام حدیں پار کردی گئیں۔ ان دو دنوں کے دوران جو کچھ پاکستان میں ہوا اگر اس کو نارمل قراردیا جائے تو پاکستان میں استحکام نہیں آ سکتا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اس طرح نہ ملک میں امن آ سکتا ہے نہ استحکام آ سکتا ہے اور نہ ہی ایسے رویوں سے ترقی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان کا فرمان ہے کہ جب تک ملک میں استحکام نہیں ہو گا ، امن نہیں ہوگا، تقسیم ختم نہیں ہوگی ، نفرتیں ختم نہیں ہوں گی تب تک نہ معیشت ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی سماج ترقی کرے گا اور نہ یہ ملک ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ کل بلاول بھٹو زرداری نے بھی اسی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے بتا دیا کہ ہم انسانی حقوق کے ساتھ کھڑے ہیں، ہماری روایات ہیں کہ ہم ہمیشہ حق اور سچ کی بات کرتے ہیں لیکن یہ بھی تو حق اور سچ ہے کہ 9 اور 10 مئی کو پاکستان میں ہماری حساس تنصیبات پر حملہ ہوا، جناح ہائوس کو جلایا گیا، پاکستان کے پرچم کو نذر آتش کیا گیا، ملک کے استحکام کو للکارا گیا، پاکستان میں تقسیم کے ذریعے نقصان پہنچانے کی بدترین کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ماضی ایسا ہے کہ ہم کئی معاملات پر ضبط کرتے ہیں لیکن جب پاکستان کے اندر اور سرحدوں پر ، میرے اور آپ کے بچوں کی حفاظت کرنے والوں ، شہدا کی یادگاروں کو مسمار کیا جائے گا تو پیپلز پارٹی اس جرم کو معاف نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس ملک کے لئے لہو دیا ہے۔ ملک کے استحکام کیلئے قربانیاں دی ہیں، ملک میں جمہوریت کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ پارٹی اس معاملے میں نرمی نہیں برتے گی۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح کے واقعات رونما ہوئے اور پیش آئے اس میں جو جو جرم سرانجام دیا گیا اس حساب سے قانون اور آئین میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس پر عمل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کسی کے ساتھ زیادتی ہو، اگر کوئی شخص اس طرح کے جرائم میں ملوث نہیں اور بے قصور ہے تو ہر گز اس کو سزا نہیں ہونی چاہئے لیکن جو لوگ باقاعدہ شواہد کی بنیاد پر شہادتوں کے ساتھ ملوث ہیں ان کے ساتھ قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے چیئرمین نے کل اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ میں کوئی قانونی ماہر نہیں لیکن ملک میں قوانین تو موجود ہیں، آئین بھی ہے ، اس لئے جس کی جو سزا بنتی ہو اس کو دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس ملک کے امن کیلئے کام کریں اور استحکام کیلئے کوشش کریں۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے اور سب سے بڑی ذمہ داری عدلیہ کی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امن کے کے فروغ میں عدلیہ کا کردار ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل ہے جو ایک ایسا جرم ہے جس میں جو جو ملوث ہے ان کی نشاندہی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے ماتھے پر لگی یہ سیاہی ایسے نہیں مٹے گی اس کو مٹانے کیلئے اپنی ساکھ پر سب سے پہلے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین میں جن اداروں کا ذکر ہے ان کی آئینی ذمہ داریوں کا بھی ذکر ہے ، ان کی حدود کا بھی ذکر ہے اس لئے آئین کے سپرٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آئین پاکستان میں استحکام، امن ، جمہوری اور سیاسی راہ پر چلانے کی بات کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی آئینی ادارے کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملک کے امن کے ساتھ کھیلے یا پاکستان میں بد امنی پھیلانے والوں کو سپورٹ کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حساس اداروں، شہدا ، سالمیت کیلئے جان دینے والوں کی یادگاروں کو مسمار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم آج ایک پیج پر نہیں ہوں گے تو پھر پاکستان میں یہ روایت بن جائے گی کہ جس کی جو مرضی ہو وہ کرے۔ یہ کسی بھی ملک کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن ممالک میں جمہوریت کا بول بالا ہے وہاں پر بھی ریاست کے خلاف کارروائیوں میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ذمہ داری شہری اور رہنما اور کابینہ کے رکن کے حیثیت سے بلاول بھٹو نے اپنا جامع نقطہ نظر بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں جس طرح دہشتگردی کا مقابلہ معصوم عوام ، بچوں اور عورتوں نے کیا۔ صدر زرداری نے جس طرح کہا کہ دہشتگردی کی جنگ میں کے پی کے سے جیسے نقل مکانی کی گئی ہے وہ پاکستان کیلئے اہم قربانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں سرفہرست ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معاملات میں امریکہ اور بھارتی رہنمائوں کے بیانات افسوس ناک ہیں لیکن ہمیں اپنی ذمہ داریوں پر غور کرنا چاہئے اور اپنے گھر کا سوچنا چاہئے۔ ہم ایک آزاد ملک ہیں اور اپنے بل بوتے پر انشا اللہ کھڑے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوام کیلئے روٹی، کپڑا اور مکان کے بنیادی فلسفے کے ساتھ آج بھی کھڑی ہے۔ ہمارا ویژن فلاحی ریاست کا ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہی عزم ہے وہ کسی شخص یا جماعت سے نہیں لڑ رہے بلکہ ملک سے غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری سے لڑ رہے ہیں اور ہم لڑتے رہے گے جب تک یہ تمام مسائل ختم نہیں ہو جاتے۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کا دعویٰ ہے کہ ان تمام مسائل کے خاتمہ کا حل ہمارے پاس موجود ہے جب پاکستان پیپلز پارٹی کو موقع ملے گا تو ملک کو درپیش تین بنیادی مسائل کے خاتمہ پر توجہ دے گی۔ ہم نے ماضی میں بھی جب بھی حکومت سنبھالی تو عوام کی مشکلات کو ختم کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ کام جاری رکھیں گے جب تک ملک کے ہر شہری کو ریلیف نہ مل جائے۔ پریس کانفرنس سے سینیٹر روبینہ خالد نے بھی خطاب کیا اور خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے حوالے سے عوام کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور سب سے زیادہ نقصان بھی برداشت کیا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو شہید نے لیاقت باغ میں اپنی آخری تقریر میں اس خواہش اور عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ مالا کنڈ اور سوات ڈیژن میں پاکستان کا جھنڈا لہرانا چاہتی ہیں اور لہرائیںگی
۔ انہوں نے کہا کہ بی بی شہید کا خواب آصف علی زرداری نے شرمندہ تعبیر کیا اور خیبر پختونخوا کے عوام کو سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ انہوں نے ریاست کی رٹ کو بحال کیا اور بے گھر ہونے والے افراد کو بحال کیا جو پیپلز پارٹی کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ کے پی کے میں جو بھی ترقیاتی کام ہوئے ہیں وہ 2008 سے 2013 کے دوران ہوئے۔ اس کے بعد صوبے میں فتنہ نازل کیا گیا اور فتنے نے 10 سال میں صوبے کو جو حشر کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔