کراچی،ویب رپورٹر : (نمائندہ خصوصی) پاکستان میں گھی اور کوکنگ آئل کی قلت کو ختم کرنے کے لیے کراچی بندرگاہ پر پھنسے 3 لاکھ 85 ہزار ٹن کا خوردنی تیل کے کنٹینر کی کلیئرنس کے لیے وزارتِ صنعت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے درمیان اتفاق ہوگیا ہے
خوردنی تیل کی صنعت کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ صنعت کو چلانے اور تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے بینک کی جانب سے نئے لیٹرآف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک اور وزارتِ صنعت کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں۔
پاکستان بناسپتی مینوفیکچر ایسوسی ایشن (پی وی ایم اے) نے دعویٰ کیا کہ بینک لیٹر آف کریڈٹ کو نہیں کھول رہے اور نہ ہی دستاویزات کو ریٹائر کررہے ہیں جس کے نتیجے میں خوردنی تیل کی فی من قیمت گزشتہ ہفتے 13 ہزار سے بڑھ کر 14 ہزار ہوگئی ہے۔
خوردنی تیل کے کنٹینر کو کراچی کے بندرگارہ پہنچنے میں 45 سے 60 روز لگتے ہیں جبکہ مارچ کے تیسرے ہفتے میں جب ماہِ رمضان شروع ہوگا تو گھی اور تیل کی طلب عروج پر پہنچ جائے گی، مستقبل میں اضافی طلب کو پورا کرنے کے لیے صنعتوں کو لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کی ضرورت ہے۔
قبل ازیں وزارت انڈسٹری نے پاکستان بناسپتی مینوفیکچر ایسوسی ایشن سے ڈاکیومنٹری تصدیق طلب کی تھی جس میں 27 دسمبر 2022 کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے خوردنی تیل کی درآمدات کو ترجیح دینے کے فیصلے کے باوجود کمرشل بینک ریٹائرمنٹ دستاویزات اور لیٹر آف کریڈٹ کو کھولنے کی درخواستیں مسترد کررہا ہے۔
وزارت نے پاکستان بناسپتی مینوفیکچر ایسوسی ایشن سے ہر کمپنی کے لیٹر آف کریڈٹ کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں جو بینک کی جانب سے ریٹائر یا کھولے نہیں گئے ۔
کورنگی ایسوسی ایشن برائے تجارت اور صنعت (کے اے ٹی آئی) کے صدر فرازالرحمٰن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے چیپٹر 84، 85 اور 87 سامان کے کنٹینر 2 جنوری کو جاری کرنے کی اجازت دینے کے باوجود کنٹینر بندرگاہ پر کھڑے رہنے ہر تشویش کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا فوری نکالا جانا چاہیے کیونکہ ایک تاجر پر اگر 10 ہزار ڈالر فی کنٹینر کے مقابلے 15 ہزار ڈالر جرمانہ ہوگا تو کاروبار تباہ ہوجائے گاجس کے نتیجے میں ضروری اشیا کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔
:پوٹاشیئم آیوڈیٹ
اسی دوران سالٹ مینوفیکچر ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایس ایم اے پی) کے چیئرمین اسماعیل سُتر کا کہنا تھا کہ پوٹاشیم آیوڈیٹ کے درآمدی جہاز گزشتہ 15 دنوں سے کراچی بندرگاہ پر کھڑے ہیں جس کے باعث صنعت میں نمک بنانے کے لیے ضروری اشیا ختم ہوگئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقامی سطح پر 70 فیصد نمک کا استعمال کیا جاتا ہے، اگر ملک میں نمک کی قلت ہوئی تو عوام بنیادی غذا سے محروم ہوجائیں گے۔