پاکستان کی پراپرٹی مارکیٹ میں ایک نئی ہلچل مچ گئی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے نیا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس کے مطابق پراپرٹی کی قیمتوں کا تعین نئے اصولوں کے تحت کیا جائے گا۔ یہ قواعد بظاہر تو شفافیت کا تاثر دیتے ہیں، لیکن گہرائی میں جائیں تو یہ سرمایہ کاروں اور عام شہریوں دونوں کے لیے کئی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اب پانچ سال پرانی عمارت پر کوئی رعایت نہیں ملے گی، جبکہ 25 سال پرانی عمارت کی قیمت خالی پلاٹ کے برابر تصور کی جائے گی۔ نالے کے سامنے والے پلاٹ کی قیمت میں بیس فیصد کمی کی جائے گی، جبکہ خیابان پر واقع کمرشل پلاٹ کی قیمت میں پندرہ فیصد اضافہ ہوگا۔ کمرشل عمارت کے بیسمنٹ کی ویلیو صرف بیس فیصد شمار ہوگی، جبکہ ہر اضافی منزل کی قیمت الگ وصول کی جائے گی۔
یہ نیا فارمولہ عام آدمی کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک طرف کمرشل پلاٹ مالکان اپنی قیمتوں میں ردوبدل کریں گے، تو دوسری طرف عام شہری کے لیے رہائشی پلاٹ خریدنا خواب بن جائے گا۔
مارکیٹ ماہرین کے مطابق یہ قواعد حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔ اس سے نہ صرف پراپرٹی کی خرید و فروخت متاثر ہوگی بلکہ بلیک مارکیٹ کو بھی فروغ ملے گا۔ لوگ سرکاری ویلیوایشن سے بچنے کے لیے غیر قانونی راستے اختیار کریں گے۔ چھوٹے سرمایہ کاروں کے لیے یہ نئے قوانین ایک ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں، جبکہ بڑے بلڈرز نے ابھی تک محتاط خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
پراپرٹی مارکیٹ پہلے ہی بے یقینی کی فضا میں سانس لے رہی ہے، اور ان نئے قواعد سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ قوانین واقعی جائیداد کی قیمتوں میں شفافیت لائیں گے یا مارکیٹ کو بحران کی طرف لے جائیں گے؟
پاکستان کی معیشت میں پراپرٹی سیکٹر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں ذرا سی لغزش بڑے معاشی بحران کا سبب بن سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان قوانین پر نظرثانی کرے اور ایسا لائحہ عمل اپنائے جو حقیقی معنوں میں مارکیٹ کے استحکام اور ترقی کو یقینی بنائے۔