پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں ہے اور قرض پروگرام کا دوسرا ریویو فروری 2025 میں ہو گا جس کیلئے پاکستان کو نیٹ ٹیکس ریونیو، تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ پبلک فنانس، رائٹ سائزنگ اور ہدف کے مطابق محصولات کی شرائط پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی شرح انتالیس فیصد سے کم ہو کر چار فیصد تک آ چکی ہے۔ جس وقت گزشتہ سال ستمبر 2024 میں آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام فائنل ہوا تو یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ یہ پروگرام پہلے سے پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت میں مزید بگاڑ پیدا کرے گا جس سے عوام کیلئے مشکلات بڑھیں گی لیکن آج دوسرے ریویو سے پہلے پاکستانی معیشت کی حالت بالکل مختلف ہے، مہنگائی، کرنٹ اکاونٹ خسارہ، ترسیلات زر، زرمبادلہ ذخائر، گردشی قرض سمیت سارے معاشی اعشاریے بہتری کی جانب گامزن ہیں۔
حکومت پاکستان نے آئی ایم ای ایف پروگرام کے حصول کیلئے کئی مشکل شرائط ماننے کا فیصلہ کیا جس سے پاکستان کی معیشت پر جو جمود تاری تھا اس سے کچھ معاملات آگے بڑھے۔ آئی ایم ایف کوئی ایسی بات نہیں کہتا جو ناممکن ہے یا جس سے ہماری سلامتی کو خطرہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حوالدار میڈیا ہر اس چیز کو شیطان بنا کر پیش کرتا ہے جو پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں ہیں کہ آئی ایم ایف کہتا کیا ہے؟
کسی معیشت کی نگرانی اور اس کی حمایت کے لیے آئی ایم ایف تین کام کرتا ہے۔
آئی ایم ایف معاشی و مالی معاملات کی ٹریکنگ کرتا ہے جس میں وہ یہ دیکھتا ہے کہ ایک ملک کی کارکردگی کیسی ہے اور اسے کن خطرات کا سامنا ہے، جیسے برطانیہ میں بریگزیٹ کی غیر یقینی صورتحال کے بعد تجارتی تنازعات اور پاکستان میں شدت پسندوں کی پُرتشدد کارروائیوں کے معاشی اثرات۔
آئی ایم ایف رکن ممالک کو تجاویز دیتا ہے کہ وہ اپنی معیشت کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف معاشی مشکلات سے دو چار ممالک کو قلیل مدتی قرض اور مالی معاونت فراہم کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کہتا ہے کہ اگر آپکی آمدنی یعنی ٹیکس وصولی 7400 ارب روپے ہے تو آپکا خرچہ 10500 ارب روپے کیوں ہے؟ بقیہ 3100 ارب روپے آپ بلند شرح سود قرض لیکر خرچ کرتے ہیں۔ کیوں؟آئی ایم ایف کی یہ بات کیسے غلط ہے؟ اصول کی بات یہی ہے کہ جس گھر کا خرچہ آمدن سے زیادہ ہو وہ گھر نہیں چل سکتا۔آئی ایم ایف یہی کہتا ہے کہ یا تو نئے ٹیکس لگائیں یا اپنا خرچہ کم کریں۔ ہماری حکومتیں اپنا خرچہ کم کرنے کو تیار نہیں اورعوام کو یہ جھوٹی کہانی سنائی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف غریب عوام پر ٹیکس لگانے کا کہہ رہا ہے۔ ہم آئی ایم ایف کے اس ظلم کو نہیں مانیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جب کوئی عوامی نمائندہ کہتا ہے کہ بھارت سے جنگ تو ہونی نہیں، ایٹم بم بھی بن چکا تو اتنی بڑی فوج کا مقصدکیا ہے؟اس گستاخی پر ڈان لیکس ہو جاتا ہے۔ مگر جب یہی بات آئی ایم ایف نے کہی کہ پنشن کا 500 ارب روپے کا بوجھ سویلین کھاتے سے کم کریں تو بہادر اور نمبر ون بھیگی بلی بن گئے۔اس سے قبل آئی ایم ایف حکومتی اداروں بشمول فوج کے خفیہ بینک اکاونٹس کو بند کرنے کا کہہ چکا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ تمام حکومتی معاملات کے لئے ایک بینک اکاؤنٹ ہو اور وہ سٹیٹ بینک کے پاس ہو۔اطلاعات کے مطابق اس پر کافی حد تک کام ہوچکا۔
بیرون ممالک سے برآمد کی جانے والی اشیا جس ریٹ پر آئیں گی اسی ریٹ پر بیچی جانی چاہیئے۔ مگر سیاسی مقاصد کے تحت پیٹرول و گیس مہنگے داموں منگوا کر سستا فروخت کیا جاتا ہے۔ خرید اور فروخت کا فرق پورا کرنے کے لئے قرض لیا جاتا ہے اور پھر قرض پر سود دیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی یہ بات کیسے غلط ہے؟
آئی ایم ایف کہتا ہے کہ کرنسی کی قدر کو کنٹرول کرنے سے ترسیلات زر کم ہو جاتی ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں اگر ایک امریکی ڈالر کے زیادہ روپے مل رہے ہیں تو کوئی بینکنگ چینل سے پیسے کیوں بھیجے گا؟ آئی ایم ایف کی یہ بات کیسے غلط ہے کہ کرنسی کو کنڑول کرنے اسکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی بجائے اسکو اوپن چھوڑا جائے۔
پوری دنیا میں یہی اصول مستعمل ہے مگر پاکستان کو چلانے والے سیاسی فوائد کے حصول کیلئے جو پالیسیاں بناتے رہے ہیں اس سے ملک کو معاشی سطح پر بے تاحاشہ نقصان پہنچایا گیا، گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان کی ترسیلات زر اور زرمبادلہ ذخائر بری طرح گرے۔ درآمدت پر پابندی کے فیصلے پر پوری دنیا میں یہی تبصرہ کیا گیا کہ یہ کرپشن کی ریسیپی ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ لوکل اشیا کے دام غیر ضروری اور غیر حقیقی طریقے سے بڑھ گئے۔ درآمدت میں خام مال بھی آتا ہے۔ خام مال نہ ہونے سے ایک طرف قیمت بڑھی جبکہ دوسری طرف اشیا کی قلت بھی ہونا شروع ہوگئی۔ یاد رہے آئی ایم ایف جو قرض دیتا ہے اس پر شرح سود ان قرضوں کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جو ہم دیگر ملکوں یا کمرشل بینکوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اب جو ادارہ اس قدر کم مارجن پر قرض دیتا ہے اور اپنا گھر درست کرنے کی بات کرتا ہے اسکو سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ نے ہمارے ہاں ولن بنا کر پیش کر دیا اور اس ادارے کی تجاویز کو غلام بنانے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کی نیٹ ٹیکس ریونیو، پبلک فنانس، رائٹ سائزنگ اور ہدف کے مطابق محصولات سمیت کوئی بھی شرط غیر منطقی نہیں۔ پاکستان کی معیشت کا ڈی این اے یکسر طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس پر آئی ایم ایف ہمیشہ سے زور دیتا ہے اگر پاکستان ایک بار مکمل طور پر اصلاحات کو یقینی بنا لے اور رائیٹ سائزنگ کے ذرئیعے کاروبار میں سے اپنا ہاتھ نکال کر یہ کام پرائیویٹ سیکٹر پر چھوڑ دے تو معیشت بہت بہتر ہو سکتی ہے۔