جموں و کشمیر کی ازادی , چوہدری رحمت علی کی کاوشیں

0

چوہدری رحمت علی کی جموں وکشمیر سے گہری وابستگی نے تحریکِ پاکستان اور کشمیر کے حقِ خودارادیت کو نئی جہتیں دیں
چوھدری رحمت علی نے 1933ء میں "Now or Never” نامی کتابچے میں پہلی بار "پاکستان ” کا نام تجویز کیا، جس میں "ک” کشمیر کی نمائندگی کرتا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ پنجاب، افغانیہ، کشمیر، سندھ، اور بلوچستان (پ+ا+ک+س+تان) پر مشتمل خطہ ایک الگ ازاد مسلم ریاست ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کا "دِل” قرار دیتے ہوئے کہا:
پاکستان کا تصور کشمیر کے بغیر ادھورا ہے
انہوںنے بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اٹھانے کے لیے جرمنی، فرانس، اور جاپان تک سفر کیا ۔
علامہ اقبال بھی کشمیر کی آزادی کے علمبردار تھے
علامہ اقبال نے کشمیر کی آزادی کو اپنی شاعری اور سیاست کا مرکز بنایا۔ انہوں نے 1894ء میں ڈوگرہ مظالم کے خلاف یہ تاریخی شعر لکھا:
توڑ اُس دستِ جفا کیش کو یارب جس نے
روحِ آزادیِ کشمیر کو پامال کیا
ان کا ایک اور شعر، جو معاہدہ امرتسر (1846ء) پر طنز کرتا ہے، یہ تھا:
دہقان و کشت و جُو و خیاباں فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
(کسان، کھیت، نہریں، اور باغ بیچ دیے گئے، ایک قوم کو سستے داموں فروخت کر دیا گیا) ۔

اقبال نے 1921ء میں کشمیر کا دورہ کیا اور وہاں کی غربت دیکھ کر لکھا:
تنم گلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر
دلم ز خاکِ حجاز و نوازِ شیراز است
(میرا جسم کشمیر کی جنت کی گلیوں میں ہے، لیکن میرا دل حجاز اور شیراز کی مٹی سے وابستہ ہے) ۔

چوہدری رحمت علی جموں و کشمیر کی ازادی کے حوالے سے بہت بے چین تھے
رحمت علی اور اقبال کے چوھدری درمیان فکری ہم آہنگی تھی۔ اقبال نے 1935ء میں رحمت علی کو ایک خط لکھا، جس میں انہیں۔ "”” مردِ راہداں””” کہہ کر خراج تحسین پیش کیا اور علامہ اقبال نے چوہری رحمت علی کی شان میں یہ شعر پیش کیا
نشان منزل راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہداں کے لیے
دونوں ہندوستانیت سے علیحدگی اور مسلمانوں کی خودمختاری کے حامی تھے۔ اقبال نے 1930ء میں الہٰ آباد خطاب میں ” ایک خود مختار مسلم ریاست کا نظریہ ” پیش کیا، بھی جبکہ چوھدری رحمت علی نے 1933 میں اس خود مختار ریاست کو ایک ازاد مملکت پاکستان بنا کر پیش کر دیا اور اسے عملی شکل دی ۔
چوھدری رحمت علی نے 1933ء میں "پاکستان نیشنل موومنٹ” قائم کی، جس کا مقصد کشمیر سمیت مسلم اکثریتی علاقوں کی آزادی تھا ۔
-اقبال نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی قیادت کی اور 1931ء کے کشمیر ڈے پر ہڑتال کی اپیل جاری کی۔ انہوں نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف قانونی مدد کے لیے وکلاء کو متحرک کیا ۔
رحمت علی کو مسلم لیگ کی قیادت نے نظرانداز کیا۔ کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ تقسیمِ ہند کا فارمولا "ٹوٹے پھوٹے پاکستان” کا باعث بنا ۔ 1940ء کی قراردادِ لاہور کے موقع پر پنجاب میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ۔ اسی طرح، اقبال کو بھی ڈوگرہ حکومت نے کشمیر میں داخل ہونے سے روک دیا تھا ۔
ورثہ اور موجودہ تناظر
رحمت علی کی وصیت کے باوجود انہیں پاکستان میں دفن نہ کیا جا سکا، اور وہ کیمبرج (برطانیہ) میں آسودۂ خاک ہیں ۔ اقبال کی وفات کے بعد بھی، ان کے اشعار کشمیریوں کے لیے تحریک کا ذریعہ بنے،

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

آج بھی کشمیر کی تحریکِ آزادی میں ان دونوں شخصیات کے افکار روشنِ راہ ہیں۔

چودھری رحمت علی نے کشمیر کے بارے میں لکھا ھے ، ’’ پاکستان جموں کشمیر کے بغیر صرف پاستان ھو گا جس کا مطلب ھے ماضی کی کہانی۔ پاکستان کے بغیر جموں کشمیر جلد ھی ایک ھندو سرزمین بن جائے گا ‘‘۔ (پاکستان پاک قوم کا آبائی وطن اردو ترجمہ صفحہ ۳۲۱ ) ۔۔ ۵ اگست ۲۰۱۹ کے بعد ھندوستان نے اسے ھندو سرزمین بنانے کا کام شروع کر دیا ھے۔ چودھری رحمت علی نے اپنے ۱۹۵۰ کے آخری پمفلٹ میں لکھا ھے، ’’ جموں کشمیر کو کھونے سے ایک ایسا خطرہ پیدا ھو گیا ھے کہ پاستان راجھستان( جیسے صحرا) میں تبدیل ھو سکتا ھے۔ چونکہ جن دریاؤں سے ھماری نہروں کو پانی ملتا تھا اور جو پاستان کی زندگی کے لئے خون کی طرح ضروری ھیں، ان دریاؤ ں کا منبع ھمارے پاس نہیں رھا۔ ھم نے پانی کا یہ منبع ھندوؤں کو دے دیا ھے جو ان کو بند کر کے کسی بھی وقت پاستان کو صحارا (شمالی افریقہ کا ریگستان ) میں تبدیل کر سکتے ھیں۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کا صرف ایک ھی طریقہ ھے کہ زندگی کی آخری سانس تک جنگ کی جائے۔ ، ھر قسم کی مصالحت سے اجتناب کیا جائے۔ ۔ کسی بھی قسم کے پیچیدہ ، مشکوک ، پر فریب رائے شماری، ثالثی اور کسی درمیانی واسطے کو قبول نہ کیا جائے۔ جس کسی کے قبضہ میں اس علاقے کے پہاڑ اور دریا ھوں گے وھی پاستان کا مالک ھو گا نہ کہ پاستان کی حکومت۔ ھماری پوری قوم کو اس علاقے کو پاستان کا حصہ بنانےکی متبرک جنگ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا چاھئے۔ جو شخص بھی کشمیر کی تقسیم کو قبول کرئے اس کو ملعون قوم قرار دینا چاھئے۔ ‘‘ ( آخری پمفلٹ پاکستان یا پاستان ۔ رحمت علی کا مکمل کام اردو ترجمہ ، صفحہ ۴۲۷)

کیا کشمیر کے بارے میں چودری رحمت علی کے یہ خیالات اج درست ثابت نہیں ہوگئے؟؟؟؟؟؟

تو پھر اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
ہمیں اپنے حقوق کے لیے میدان عمل میں اترنا ہوگا

صدائے حق کی جرات سے تو زندہ کر زمانے کو

تیرے ساتھ دنیا میں ہزاروں دل دھڑکتے ھیں

ھم پوری پاکستانی قوم سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا اور پوری قوم کے تمام واٹس ایپ گروپس کے تمام ممبران کا تہ دل سے مشکور ھیں کہ جس طرح سے انہوں نے 28 جنوری 1933 ڈکلیریشن ڈے حصول پاکستان مطالبہ سے لے کر چوہدری رحمت علی کی تین فروری برسی کے موقع پر جس عقیدت محبت اور پیار کا اظہار کیا اور ان کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت اورتعلق کو جس لگن جذبہ کے ساتھ مختلف گروپوں میں شیئر کیا ہم اپ کے بے حد مشکور ہیں اور پھراپ سب دوستوں نے دیکھا کہ اس کا نتیجہ بھی برامد ہوا کہ تمام گروپوں میں ہی نہیں بلکہ مقامی طور پر پاکستان کے مختلف شہروں کے اندر بڑے بڑے پروگرامز کیے گئے اور پورا پاکستان کے سوشل میڈیا نے بھی اسے بھرپور کور کیا اور کوریج دی پرنٹ میڈیا نے بھی اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی تقریبا ہر چینل پر اس کو کور کیا گیا
چوہدری رحمت علی کے حوالے سے پروگرامز کو سوشل میڈیا پر بھرپور کوریج دی
ہمارے 28 جنوری 1933مطالبہ حصول پاکستان ڈیکلریشن ڈے ناؤ اور نیور کو بھی پورے میڈیا نے کوریج دی اور اسی طرح سے پاکستان ٹیلی ویژن یعنی پی ٹی وی سے لے کر جی این این، دنیا نیوز، پبلک نیوز اور باقی تمام چینلوں پر چوہدری رحمت علی کہ ڈکلریشن ڈے 28 جنوری اور ان کی برسی 03 فروری کے حوالے سے بھرپور پروگرامز دیکھنے کو ملے اور میڈیا پر بھر پور کوریج ملی جس پر ہم میڈیا کے بھی مشکور ہیں
جس سے پوری قوم کے اندر چوہدری رحمت علی کی خدمات کے حوالے سے تحریک بیدار ہو چکی ہے ہم اس تحریک کو ان شاءاللہ ماند نہیں پڑھنے دیں گے اسی جذبے کے ساتھ اگے بڑھیں گے
اسی طرح سے ھم اپ دوستوں سے درخواست کرتے ھیں کہ پاکستان کا ھر دن چوہدری رحمت علی کا دن ھے کیونکہ وہ پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے پاکستان کا نام تجویز کیا نقشہ دیا اور پاکستان کے حصول کی جدوجہد 1915 میں 18 سال کی عمر میں اپنے طالب علمی کے دور میں شروع کی اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا انہوں نے اپناگھر بار چھوڑا کسی چیز کی فکر نہ کی اور وہ اس ملک کی خاطر جلاوطن ہو گئے اور اج وہ دیار غیر میں دفن ہیں
کشمیر ڈے 05 فروری ا رہا ہے یہ دن بھی چوہدری رحمت علی کی شخصیت کے حوالے سے بہت ہی اہم دن ہے چوہدری رحمت علی کی کشمیر کے حوالے سے خدمات اور کوششوں کو کوئی ادمی بھی فراموش نہیں کر سکتا بلکہ وہ تو اسی کشمیر کے مسئلے پر اپنی قیادت سے ناراض ہو کر برطانیہ چلے گئے تھے انہوں نے متحدہ ہندوستان جیسے نظریہ سے سے اس قوم جان چھڑائی اور پاکستان کی ازادی کیلئے جنگ لڑی اورجدوجہد ازادی پاکستان کے حوالے سے ہندو اورانگریز سامراج کے ظلم و جبر کی ہر موقع پر نشاندہی کی اور پاکستان کی پہلی ازادی 15 اگست 1948 کو اقوام متحدہ کو مسلمان قوم پر جبر کے متعلق سیکرٹری اقوام متحدہ کو خط لکھے اور سیکرٹری اقوام متحدہ کی توجہ مسلمانوں پر جبر ظلم کی طرف دلوائی اور انہیں باور کروایا کہ ازادی پاکستان کی اڑ میں مسلمانوں کو زور ظلم اور جبر سے قتل کیا جا رہا ہے اور کروڑوں مسلمانوں کے حقوق کو متاثر کیا جا رہا ہے اور بتایا کہ کشمیر کی ازادی کے بغیر پاکستان کی ازادی نامکمل ہے اور کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے تو ہم ان شاءاللہ پانچ فروری کشمیر ڈے کو بھی
"” چوہدری رحمت علی”””

کے نام کرتے ہیں اور بھرپور طریقے سے اسے منائیں گے امید ہے کہ اسی جذبے کے ساتھ اپ ہمیں اپنا تعاون پیش کریں گے
کیونکہ
کشمیر کے وکیل چوہدری رحمت علی کے جسد خاکی جو کہ برطانیہ میں امانتا دفن ہے کو جب تک پاکستان نہیں لایا جاتا ھمارے خیال سے کشمیر کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا
لہذا سب سے پہلے وکیل کشمیر چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی پاکستان لانے کی تحریک چلائی جائے
وکیل کے بغیر کیس لڑنا نا ممکن ھے
ھم سمجھتے ھیں کہ اگر چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی پاکستان واپس لایا جائے تو کشمیر کی ازادی میں اسی طرح سے دوبارہ جوش اور جذبہ اور تحرک پیدا ہو سکتا ہے جو پاکستان کے قیام کے وقت تھا
اپ اندازہ لگائیں کہ ہم نے 2002 تک پی ٹی وی کی کوئی خبر شروع کشمیر کی خبر سے نہ ہو کبھی نہیں سنا تھا لیکن اب حالات یہ ہیں کہ کشمیر کی ازادی کی خبر کو خبرنامے
سے بالکل ہی غائب کر دیا گیا یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو بھول جاتے ہیں

قوموں کی زندگی میں مشکل حالات اتے رہتے ہیں اور انہی حالات سے ہی قومیں اپنے اپ کو اگے بڑھانے کے لیے لائحہ عمل بناتی ہیں پچھلی کمی کوتاہی اور غلطیوں کو سمجھتے ہوئے ائندہ سے اگے بڑھنے کا عزم کرتے ہیں
ان شاءاللہ کشمیر بنے گا پاکستان اسی نعرے کے ساتھ ہم اگے بڑھیں گے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم اپنے رفقاء کو یہ بات بتانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ازادی جدوجہد سے حاصل کی جا سکتی ہے
بقول چوھدری رحمت
خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس قوم کو اپنی حالت بدلنے کا خود خیال نہ ہو زبانی کلامی باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوگا ہمیں اس تحریک کو پورے جذبے کے ساتھ اگے بڑھانا ہوگا
کشمیر کی ازادی کے حوالے سے بھی اسی طرح سے جدوجہد کرنی ہوگی ہمیں پروگرامز کرنے ہوں گے اور میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر اپنی اواز کو اٹھانا ہوگا
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے
ان؛شاءاللہ ہندوستان کے جبر و ظلم کے سامنے مسلمان قوم اسی طرح سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے گی جس طرح سے حصول پاکستان کے وقت بنی تھی
اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو
شکریہ

Leave A Reply

Your email address will not be published.