تازہ ترینکالمز

دل کے ٹکرے بغل بیچ لیے پھرتا ہوں

تحریر ۔۔ نازمین عامر

جمرود تحصیل میں آباد کوکی خیل قوم کی میزبانی میں خیبر پختونخوا میں آباد بیشتر قبائل کے نمائندےایک بڑے میدان میں موجود ہیں ۔خیمے لگائے گئے ہیں ۔پنڈال میں موجود سامعین ہر قبیلے کے نمائندہ مشر(بڑا)کی تقاریر سن رہےہیں۔ہر مقرر اس صوبے کے مسائل خصوصاً بدامنی کے حوالے سے پشتون عوام کی اکثریت کی آواز میڈیا کے ذریعے حکومت وقت اور ملک کے دیگر لوگوں کو پہنچانا چاہتے ہیں ۔

یہ ہے وہ جھلکیاں جو گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں اور ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے کہ اگر صوبے کے پسے ہوئے طبقات کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں نہ سنی گئی تو پھر دشمن کے لیے ایسے حالات میں سٹیج پر کھیل ترتیب دینا اور کھیل کھیلنا آسان ہوگا۔

77سال بہت بڑا عرصہ ہے کسی نئے وجود میں آنے والے ملک کے لیے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو۔مگر بدقسمتی سے قائد اعظم کے بعد وطن عزیز کو حکومت کے ایوانوں میں ایسے نمائندے کم ہی میسر آئے جو محروم طبقے کی آواز بنتے ۔اور انصاف کا نظام رائج کرتے۔ حضرت علی رضی اللہ کا یہ قول بہت تواتر سے نقل کیا جاتا ہے کہ ریاست کفر پر قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم اور بے انصافی پر نہیں ۔

آج ملک میں ظلم اور بے انصافی کا دور دورا ہے۔قانون کی ایک آنکھ بند اور ایک کھلی۔اور طاقت ور اسی بند آنکھ کا فائدہ اٹھا رہا ہے ۔غریب کے لیے انصاف کا حصول مہنگا اور مشکل بلکہ اگر کسی طاقتور نے حق تلفی کی ہے تو نا ممکن ۔۔۔

حال ہی میں گل احمد انرجی لیمیٹیڈ گروپ کے ڈائریکٹر کی بیوی جو نشے میں تھی،کے ہاتھوں غریب طالبہ اور اس کے والد کا قتل ہے۔اور ایک نامور پیر کے ہاتھوں غریب ملازمہ جو ایک بچی تھی ،کے ساتھ زیادتی اور قتل،آخری اطلاعات تک مظلوم خاندانوں کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔کہ ظالم طاقت ور ہیں۔ریاست جس کو ماں جیسا ہونا چاہیے۔انہی طاقت وروںکے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے۔

کراچی تا خیبر ملک کرپشن ،مہنگائی۔بدامنی اور سنگین مسائل کا شکار ہے ۔اور یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ملک دشمن عناصر انہی مسائل کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ایسی کھائی میں دھکیل کر گرانا چاہتا ہے جہاں سے باہر نکلنا ممکن نہ ہو ۔
آج اگر خیبر پختونخوا بدامنی ،دہشت گردی،بم دھماکوں اور لاپتہ افراد جیسے گہرے زخموں سے چور ہے۔اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم وہاں نہیں ہے تو اس کی وجہ بشتون صوبہ نہیں بلکہ حکمرانوں کی نااہلی ،اقتدار کی ہوس اور بلاشبہ دشمن کے ترتیب دئیے گئے کھیل ہیں۔۔ صرف پختون خاورہ اور پختون وینہ(پشتون مٹی اور پشتون خون) سستا نہیں بلکہ ہر غریب اور پسماندہ طبقات کی عزت وآبرو جان ومال پامال ہورہی ہیں۔وجوہات بہت ہیں۔

جرگے کا انعقاد ایک طرف خوش آئند ہے۔ہر شہری کو آئینی حقوق دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور ہر شہری کو جان و مال،عزت وآبرو کی حفاظت فراہم کرنا۔ کریں اور یہ بھی سچ ہے کہ جب تک اجتماعی طور پر آواز نہ اٹھائی جائے حکومت جو اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ہے۔سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھاتی۔
اس کے علاوہ
جرگے کے انعقاد کے دوران چار افراد کی ہلاکت قابل مذمت ہیں۔مگر ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ قوم پرستی کی بنیاد پر مسائل کو اجاگر کرنا اور اور مطالبات رکھنا ملک دشمن عناصر کے لیے بہت آسان ہدف ہوتا ہےکہ تعصب کی آگ بھڑکانا خاص طور پر موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں۔۔۔

دوسری طرف حکومت وقت اور فوج کو بھی سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی جنگ سے زخمی خیبرپختونخوا کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں ۔پشتون عوام کے دیرینہ مطالبہ کہ اب یہ صوبہ مزید کسی آپریشن کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔اور پولیس کو باختیار کرتے ہوئےفوج اپنی آئینی ذمہداریوں پر واپس چلی جائے ۔

وطن عزیز کے قافلے کو اپنے منزل کی طرف رواں دواں رکھنا اور لٹنے سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے اس قافلے میں بلوچ بھی ہیں،سندھی بھی۔پٹھان بھی ہیں اور پنجابی بھی اور اس کارواں کے رہبر قرآن وسنت۔۔۔

اس قافلے کے اولین مسافروں میں سے شاعر
مشرق نے کہا تھا کہ
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہوں پٹھان بھی
تم بتاؤ تو سہی کہ مسلمان بھی ہو۔
آج ہر پاکستانی کی یہ حالت ہے کہ جس کے بارے میں شاعر نے کہاتھا کہ
دل کے ٹکرے بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کوئی اس کا بھی علاج اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button