
اسلام آباد : وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسگی فوزیہ وقار نے جنسی ہراسگی سے متعلق ایک اہم مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر کسی استاد پر طالبات کی جانب سے جنسی ہراسگی کا الزام عائد کیا جائے تو الزامات کے دفاع میں ثبوت فراہم کرنا طالبات کی نہیں بلکہ ملزم استاد کی ذمہ داری ہے۔
یہ فیصلہ اسلام آباد کی ایک وفاقی پبلک سیکٹر یونیورسٹی کے لیکچرر کی اپیل نمبر 143 کی سماعت کے بعد سامنے آیا، جس میں لیکچرر کو یونیورسٹی کی انکوائری کمیٹی نے جنسی ہراسگی کا مرتکب قرار دے کر ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ وفاقی محتسب نے اس اپیل کو خارج کرتے ہوئے انکوائری کمیٹی کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
وفاقی محتسب نے اپنے تحریری حکم نامے میں کہا کہ انسدادِ ہراسگی ایکٹ 2010ء کے تحت انکوائری کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شواہد (دستاویزی، آڈیو یا ویڈیو) جمع کرے، اور کسی بھی ادارے کو ایسے مواد تک مکمل رسائی ہونی چاہیے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ شکایت کنندہ طالبات کو ذاتی طور پر پیش ہونا یا جرح کے لیے آنا ضروری نہیں ہے۔
متاثرہ کیس میں مذکورہ لیکچرر نے انکوائری کے دوران اپنا موبائل فون کمیٹی کو فراہم کرنے سے انکار کیا، جو کہ شواہد کی فراہمی سے انکار کے مترادف سمجھا گیا۔ اس رویے کی بنیاد پر اسے مجرم قرار دیا گیا اور انکوائری کمیٹی کی سفارش پر برطرفی کو جائز قرار دیا گیا۔
فیصلے میں وفاقی محتسب فوزیہ وقار نے لکھا: "ایک ایسا استاد جو متعدد طالبات کو ہراساں کرنے میں ملوث ہو، اس کی تعلیمی ادارے میں کوئی جگہ نہیں۔”یہ فیصلہ نہ صرف ایک متاثر کن قانونی پیش رفت ہے بلکہ یہ دیگر تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے لیے ایک اہم پیغام بھی ہے کہ جنسی ہراسگی کے الزامات کو ہلکا نہ لیا جائے اور تمام تر شواہد فراہم کرنا قانونی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔
