پاکستانتازہ ترین

خصوصی افرادکی صحت کی بحالی کیلئے خدمات معاشرے اور خاندانی نظام کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگاصدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ن

خصوصی افرادکی صحت کی بحالی کیلئے خدمات معاشرے اور خاندانی نظام کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگاصدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ن

 جمعہ کو یہاں گلوبل ری ہیبلی ٹیشن لیڈرشپ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام منعقدہ کورس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کہا کہ کمیونٹی ویلفیئر تمام مذاہب بشمول اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی بنیاد رہی ہے، انہوں نے اس حوالے سے انبیاء کرام، حضرت محمد ﷺ اور ان کے صحابہ کی مثالیں پیش کیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیاوی معاملات میں اخلاقیات اور انسانیت کا فقدان ہےایسے میں معذور افراد اور بحالی کے ضرورت مند افراد کی فلاح و بہبود کے لئے معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایک تحقیقی مطالعہ کا حوالہ دیتے ہوئے صدر مملکت نے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان کی 24 فیصد آبادی ذہنی تناؤ کا شکار ہے جس میں 60 سے 70 فیصد طلباء شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین نفسیات کی کم تعداد کے پیش نظر اس صورتحال پر توجہ نہیں دی جا سکتی، ایسے میں خاندانی نظام، گروپ تھراپی اور سٹریس شیئرنگ کی صورت میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ ریاست پر انحصار کئے بغیر خاندانی نظام کو اسلامی معاشروں کی طرح اپنا کردار ادا کرنے کے لئے سامنے آنا ہو گا جہاں کمیونٹیز خود قوانین پر عمل کرتی ہیں۔ انہوں نے پاکستانی معاشرے کی جانب سے خصوصی افراد کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ معاشرے کے تمام محروم طبقات بشمول خواتین اور 27 ملین سکول نہ جانے والے بچوں کو ان کی مشکلات کے ازالے کے لئے توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 27 ملین سکول نہ جانے والے بچوں کا اندراج اگر ریاست پر چھوڑ دیا جائے تو کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں جبکہ پاکستانی معاشرہ مساجد کے پہلے سے موجود انفراسٹرکچر سے استفادہ کر کے اس مسئلے کو بہت پہلے حل کر سکتا ہے۔

صدر نے کہا کہ جسمانی معذوری کے حامل بچوں کو عام سکولوں میں داخل کیا جانا چاہئے کیونکہ اس سے دوسرے بچوں کو ان کے چیلنجز کے بارے میں شعور ملے گا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے کہا کہ ریاست سے زیادہ معاشرے کو نابینا افراد کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لئے کوششیں کرنا ہوں گی۔ صدر نے معذوری اور بحالی کے مسائل سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو تعاون فراہم کرنے پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا شکریہ ادا کیا۔ قبل ازیں، پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندے پالیتھا مہیپالا نے معذوری اور بحالی کے مسائل کے حل کی کوششوں کے لئے صدر عارف علوی کی قیادت اور کردار پر روشنی ڈالی۔

اسی طرح انہوں نے اس حوالے سے خاتون اول بیگم ثمینہ علوی کے تعاون اور کوششوں کو بھی سراہا۔ ڈبلیو ایچ او کے نمائندے نے بحالی صحت کے نظام کے انضمام پر زور دیا اور اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کے تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے پرائمری ہیلتھ کیئر سیکٹر میں پاکستان کے “زبردست” کام کو بھی سراہا۔ جارجیا کی کیورٹیو فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر گورج نے مزید فنڈز مختص کرکے اور استعداد کار میں اضافے کے ذریعے صحت کے نظام کو مربوط کرنے کے لئے اپنے ملک کے سفر پر روشنی ڈالی۔

ڈبلیو ایچ او کے ہیڈ کوارٹر سے ڈاکٹر الارکوس سیزا نے شرکاء کو بتایا کہ بحالی کے حوالے سے ممالک کا نقطہ نظر تبدیل ہو رہا ہے کیونکہ 40 ممالک نے اس حوالے سے ان کی مدد و تعاون طلب کیا ہے۔ قیادت اور حکمرانی کو مضبوط بنانے پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تقریباً 60 لاکھ افراد معذوری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور تقریباً 47 ملین بحالی کی خدمات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ جانز ہاپکن یونیورسٹی کے ڈاکٹر عبدالغفور بچانی نے کہا کہ دنیا بھر میں تقریباً 2.4 بلین افراد کو بحالی کی خدمات کی ضرورت ہے اور پاکستان کے ہر پانچ میں سے ایک فرد کو اس مدد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بحالی کو صرف فزیو تھراپی یا معذوری تک محدود رکھنے کے خلاف مشورہ دیا اور کہا ہر انسان کو زندگی میں کسی بھی وقت اس خدمت کی ضرورت پڑ سکتی ہے تاہم اب تک 10 فیصد سے بھی کم لوگ بحالی سے مستفید ہو سکتے ہیں جس کے لئے صحت کے نظام کو بہتر بنانے، فنڈنگ ​​اور انضمام کی ضرورت ہے۔ اپنے خطبہ استقبالیہ میں ڈاکٹر عبدالغفار نے کہا کہ پانچ روزہ کورس میں پاکستان اور یوگنڈا سے ماہرین اور سٹیک ہولڈرز شریک ہوئے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button