گلی میں شدید دھوپ اور گرمی میں قربانی کے بکرے اور گائے بندھی ہوئی نظر آئیں۔ گرمی کی شدت سے بیچارے بکروں کی زبان حلق سے باہر آ رہی تھی۔ گاڑی روک کر پانی کی بوتل جو اپنے لیے رکھی تھی باہر بندھے بکرے کے برتن میں ڈال دی اس نے فور۱” سے پہلے ٹھنڈا پانی پیا اور مشکور نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا جیسے اس وقتی ریلیف کیلئے اللہ کا شکر ادا کر رہا ہو۔ پاس بیٹھے چوکیدار سے کہا کہ ان کے مالکان کو سمجھاؤ اتنی گرمی ہے گھر میں کسی پنکھے کے نیچے ٹھنڈی جگہ پر رکھیں۔ چوکیدار نے بتایا کہ صاحب جی میری ڈیوٹی ان کا باہر خیال رکھنا ہے کہ کوئی چور ی نہ کر کے لے جائے، باقی ساری گلی والوں نے بکرے اور گائے اس لیے باہر باندھے ہوئے ہیں کہ ہر آتے جاتے کو دکھا سکیں کہ وہ قربانی کررہے ہیں۔ مجھے ہماری اجتماعی گھٹیا سوچ پر شدید دکھ ہوا کہ قربانی کا مقصد دکھاوا ہی رہ چکا ہے جبکہ قربانی فرض کرنے کا حقیقی سبق تو یہ تھا کہ آپ اپنی عزیز چیز اللہ کی راہ میں قربان کریں۔ جس بکرے کو ہم نے اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے اس کو شدید دھوپ اور گرمی میں اذیت دیکر ہماری قربانیاں کیسے قبول ہوسکتی ہیں۔؟
خدارا نمود و نمائش میں پاگل ہوکر ان معصوم اور بے زبان جانوروں پر ظلم نہ کریں ورنہ اللہ کی قسم تمہاری قربانی قبول ہونا تو دور یہ جانور اللہ کے ہاں تمہاری شکایت کریں گے۔ اس اذیت کے بدلے تمہارا گریبان پکڑیں گے۔ بکرا منڈی کے انتظامی افسران سے بھی گزارش ہے جہاں اتنے اللے تللوں کے جعلی بل تیار کرتے ہیں وہیں ان بے زبان جانوروں کیلئے پنکھے، ائیر کولر اور سایہ فراہم کرکے دعائیں لیں۔
اگر آپ کا بکرا بھی باہر گلی میں بندھا ہے یا کہیں گرم جگہ تو اسی فوری سایہ دار جگہ اور ٹھنڈی ہوا فراہم کریں۔
ہمارے گھر میں عید سے چند دن پہلے بکرا آجاتا ہے اگر گرمی ہوتو مناست ٹھنڈی جگہ اور پنکھے کا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ مجھے یاد ہے کہ جب سردیوں کی عید ہوتی تھی تو امی بکرے کو جرسیاں اور کمبل پہنا کر خیال رکھتی تھیں۔ بکرے کو چیف گیسٹ کا سٹیٹس دیا جا تھا، دالیں، پھل سبزیاں اور تازہ چارہ کھلایا جاتا تھا۔ امی نے سختی سے تلقین کرنی کہ یہ اللہ کا مہمان ہے اس کی خدمت کرو گے تو اللہ قربانی قبول کرے گا۔ ہمارے گھر میں بولنے والا راء طوطا ہے جسے گرمیوں میں اے سی کمرے میں اور سردیوں میں ہیٹر والے کمرے میں شفٹ کردیا جاتا ہے۔ گھر میں آنے والے ہر پھل پر پہلا حق طوطے کا ہوتا ہے۔ گھر کی چھت پر دو درجن سے زائد مٹی کے کونڈے ہیں جن میں باجرہ، گندم اور پانی رکھا جاتا ہے تاکہ پرندے کھانا کھا سکیں اور پانی پی سکیں۔
لکھاری کا کام حکومت،افراد اور اداروں کی تعریف یا تنقید کرنا نہیں ہوتا۔ لکھاری کا اصل کام یہی ہے کہ معاشرتی برائیوں اور مسائل کا ذکر کیا جائے۔اس لیے میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ منافقانہ شرم و ہچکچاہٹ کی بجائے معاشرتی برائیوں کا تذکرہ کرتا رہوں۔
آئے دن کسی نہ کسی معصوم جانور اور پرندوں پر ظلم و زیادتی کی خبریں دیکھ کر دل شدید رنجیدہ ہوتا ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ پیٹس لورز کلب (pets Lovers Club) بنایا جائے جہاں خاص طور پر معاشرتی ناانصافی اور انسانوں کے جانوروں کے ساتھ غیرانسانی رویوں اور ظلم و ستم کا شکار سٹریٹ ڈاگ، بلیوں سے لیکر ہر طرح کے جانوروں کیلئے کئیر سینٹر ہو۔ زخمی جانوروں اور پرندوں کیلئے ہسپتال اور ریہبلیٹیشن سینٹر ہو۔ جو احباب بھی Pets Lovers Club(پیٹس لورز کلب) کا حصہ بننا چاہتے ہوں ضرور انباکس کریں ہم اجتماعی کاوش سے انسانیت دوستی کی اچھی مثال قائم کرسکتے ہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ گھریلو جانوروں کیلئے انسپیکشن کا سسٹم ہو اگر کسی کو گھر میں PET رکھنے کا شوق ہو تو مناسب سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ جانوروں اور پرندوں پر ظلم و زیادتی کرنے والوں کو بھاری جرمانے اور سخت سزائیں دی جائیں۔
میں نے عید الفطر پر بھی لکھا تھا کہ اگر عید کی حقیقی خوشی حاصل کرنی ہے تو ذاتی ملازمین کے ساتھ ساتھ گلی، محلے، بینکوں اور پبلک مقامات کی سکیورٹی اور دیگر ڈیوٹی پر مامور ایسے افراد کو عیدی ضرور دیں جو اپنی عید قربان کر کے بھی ہماری حفاظت کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور عید جیسے اہم تہوار پر بھی حصول رزق حلال کیلئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔