لاہور (نیوز ڈیسک) حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایک مرتبہ پھر مفاہمت اور بات چیت کی

فضا بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سیاسی ماحول پر سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے بھی اپنی تازہ تحریر میں تبصرہ کیا ہے۔
جنگل میں طاقت کی علامت سمجھے جانے والے شیر اور چیتے کی دنیا الگ الگ ہے۔ شیر عمر رسیدہ ہو چکا ہے، اور اگرچہ اس نے جنگل میں امن قائم کرنے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے، لیکن وہ تاریخی مقام حاصل نہ کر سکا جس کی اسے خواہش تھی۔ سندھ اور ہند کے جنگلات میں سکون لانے کی اس کی کوششوں کو جنرل مشرف اور جنرل راحیل شریف جیسے کرداروں کی مداخلت نے روک دیا۔
شیر نے ہاتھی کے ساتھ مل کر جمہوریت کی مضبوطی کے لیے معاہدہ کیا، مگر جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے چیتے کو میدان میں اتار کر اس سیاسی اتحاد کو چیلنج کیا اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کی راہ ہموار کی۔ آج اگرچہ شیر کے خاندان کو حکومت میں حصہ حاصل ہے، لیکن اس کی آنکھوں میں ابھی بھی اپنے ادھورے خوابوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
اب شیر روزمرہ کی سیاست سے کنارہ کش ہو کر خاندانی معاملات، وراثتی ذمہ داریوں اور نئی نسل کی تیاری پر توجہ دے رہا ہے۔ تاہم، اس کے چہرے سے صاف جھلکتا ہے کہ اسے اپنی ناکامیاں کھٹک رہی ہیں۔ وہ ایک ایسا کردار ہے جو ناراضی دل میں باندھ لیتا ہے اور جلدی معاف نہیں کرتا۔ اس کے خیالات اور جذبات کو سمجھنا آسان نہیں، مگر اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر وہ جانتا ہے کہ ہائبرڈ نظام میں ملنے والا اقتدار دیرپا نہیں۔ عوامی ووٹ کی صورت میں اس کے گروپ کی اکثریت حاصل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
