صبح، دوپہر اور رات کے کھانے کے اوقات آپ کی صحت پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں؟

صبح، دوپہر اور رات کے کھانے کے اوقات آپ کی صحت پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں؟

0

مصروف طرزِ زندگی میں متوازن غذاؤں کا انتخاب اکثر مشکل ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ دن بھر صحت بخش کھانے نہیں کھا پاتے یا رات کے وقت زیادہ کھانے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن طبی ماہرین کے مطابق کھانے کا وقت بھی غذا کے انتخاب جتنا ہی اہم ہے۔ تحقیقی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کھانے کے درست اوقات نہ صرف امراض سے تحفظ دیتے ہیں بلکہ وزن میں کمی میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
عمران خان کے بھانجے اسپین میں آئرن مین ورلڈ چیمپئن شپ میں شرکت سے محروم

کھانے کے اوقات جسم کی اندرونی گھڑی یعنی حیاتیاتی نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں، جو نیند، جسمانی درجہ حرارت اور ذہنی کارکردگی جیسے افعال کو منظم کرتا ہے۔ اگر غذا کو جسم کے قدرتی ردہم کے مطابق لیا جائے تو اس سے صحت بہتر ہوتی ہے، بلڈ پریشر کم ہوتا ہے اور جسمانی وزن قابو میں رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کھانے کے اوقات کو حیاتیاتی گھڑی کے مطابق ترتیب دینے سے ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسے دائمی امراض کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔

غذاؤں کے درمیان وقفے کی اہمیت پر بھی ماہرین زور دیتے ہیں۔ اگر آپ صبح 9 بجے ناشتہ کریں اور رات 10 بجے کھانا کھائیں تو یہ وقفہ 13 گھنٹے بنتا ہے، جسے کم کر کے 10 یا 11 گھنٹے تک لانا زیادہ مفید سمجھا جاتا ہے۔ یہ طریقہ موٹاپے یا ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے خاص طور پر مددگار ہے۔ یہ intermittent فاسٹنگ سے مختلف ہے، کیونکہ اس میں وقفہ کم ہوتا ہے اور جسم کی اندرونی گھڑی بہتر طور پر متوازن رہتی ہے۔

رات گئے کھانے کی عادت میٹابولزم کو متاثر کرتی ہے۔ چونکہ اس وقت جسمانی سرگرمی کم ہوتی ہے، اس لیے ہارمونز کا توازن بگڑ جاتا ہے، بھوک بڑھتی ہے اور بلڈ گلوکوز کی سطح اوپر چلی جاتی ہے۔ شام کے وقت جسم متحرک نہ ہونے کی وجہ سے بلڈ شوگر بھی زیادہ رہتی ہے۔ اس کے برعکس رات میں جلدی کھانا کھانے سے گلوکوز کی سطح قابو میں رہتی ہے۔

اگرچہ بعض اوقات رات گئے کھانے سے گریز ممکن نہیں ہوتا، مگر اسے معمول بنانا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ بہتر ہے کہ رات کے کھانے اور سونے کے درمیان کم از کم دو گھنٹے کا وقفہ رکھا جائے۔ اگر آپ رات 12 سے صبح 7 یا 8 بجے تک سوتے ہیں تو جاگنے کے ایک گھنٹے کے اندر ناشتہ کریں، دوپہر میں کھانا کھائیں اور رات کا کھانا سونے سے دو گھنٹے قبل مکمل کر لیں۔

نوٹ: یہ معلومات طبی جریدوں میں شائع تحقیقی رپورٹس پر مبنی ہیں۔ کسی بھی تبدیلی سے قبل اپنے معالج سے مشورہ ضرور کریں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.