پھر آنسووں میں ڈوباپاکستان

 تحریر:عابد رشید  

0
پاکستان کی زمین ایک بار پھر پانی کے سیلابی شور میں رو رہی ہے۔ آسمان سے برسنے والی بارشیں جب زمین سے ٹکراتی ہیں تو صرف قطرے نہیں گرتے، امیدیں ٹوٹتی ہیں، گھر برباد ہوتے ہیں، اور خواب پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ صرف تین ہفتوں میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں سو سے زیادہ زندگیاں موت کے حوالے ہوئیں …. ان میں نصف وہ پھول تھے جو ابھی کلی بھی نہ بنے تھے۔ جنہیںسکول کی گھنٹیوں کی آواز سننی تھی، کھیل کے میدان میں ہنسنا تھا، وہ اپنے ہی گھر کی چھتوں پر پانی میں بہہ گئے۔
….گلیاں ندی نالے بن گئی ہیں۔ وہ گلیاں جہاں بچے شام کو کرکٹ کھیلتے تھے، اب وہاں کشتیاں رکی ہیں یا پھر صرف کچرا تیر رہا ہے۔ گھروں کی دیواریں جو کبھی مان اور سکون کی علامت تھیں، پانی کے زور سے مٹی کی طرح گر گئیں۔ ہر طرف کائی، بدبو، کیچڑ اور بے بسی کی تصویر ہے۔ زندگی غوطے کھا رہی ہے اور انسان پانی کے شور میں اپنی ہی چیخیں سننے سے قاصر ہیں۔
ریسکیو کے دستے اپنی پوری طاقت لگا رہے ہیں، مگرآگ کی طرح پانی بھی بڑا بے رحم ہوتا ہے…. پانی کی رفتار انسانی کوششوں سے زیادہ تیز ہے۔ ایک طرف بے یار و مددگار خاندان، دوسری طرف چکر کاٹتے ہیلی کاپٹر جو صرف اوپر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں اور پھر وہی منظر جسے دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھر ہو گئی ہیں: ایک ماں ہاتھ اٹھا کر مدد مانگتی ہے، لیکن اس کے قریب صرف شور ہے، سکون نہیں۔
یہ محض ایک قدرتی آفت نہیں۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی غفلت کا ایسا امتزاج ہے جو ہر سال ہمیں رلاتا ہے۔ 2022 کا سیلاب یاد ہے؟ جب پورے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا تھا، جب تین کروڑ لوگ بے گھر ہوئے تھے اور جب دنیا کے سامنے ہم نے اپنے زخم دکھائے تھے۔ دنیا نے وعدے کئے، امداد آئی لیکن ہم نے اس تباہی سے کیا سیکھا؟ افسوس، کچھ نہیں۔ آج پھر ہم ویسے ہی بے تیاری کے ساتھ کھڑے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
سب سے زیادہ کمزوری گلگت بلتستان میں ہے۔ یہاں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ درجہ حرارت 48 ڈگری سے اوپر جا چکا ہے اور برفانی جھیلیں کسی بھی وقت ٹوٹ کر سیلاب کو جنم دیتی ہیں۔ گاوں ایک پل میں صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ جن آنگنوں میں بچے کھیلتے تھے، کھیتوں میں سبزہ اگتا تھا، آج وہاں صرف پتھروں اور پانی کی ویرانی ہے۔
زندگی بچانے کے لئے جو ابتدائی انتباہی نظام بنائے گئے تھے وہ کبھی بنے ہی نہیں اور اگر بنے تھے تو پانی کے ایک ہی ریلے میں سارا بندوبست ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گیا ۔ بچوں کو لوری دینے والی ماں کو کیا خبر تھی کہ چند لمحوں بعد پہاڑ سے ٹوٹ کر آنے والا پانی اس کا سب کچھ بہا لے جائے گا؟
میدانی علاقوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ ہمارے شہر محض بارش میں نہیں بلکہ ہماری بے ہنگم تعمیرات کی وجہ سے ڈوبے۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد …. شہروں میں نکاسی کے قدرتی راستے ہم نے خود کنکریٹ کے نیچے دفن کئے۔ دریاﺅں کے کناروں پر سبز پٹیاں ہم نے بیچ ڈالیں۔ غیر قانونی کالونیاں ہماری آنکھوں کے سامنے بنتی رہیں اور ہم نے انہیں روکنے کے بجائے مزید اجازت نامے بانٹے۔
جب بارش آئی تو پانی کہاں جاتا؟ وہ ہمارے گھروں میں آیا، ہمارے بچوں کے بستروں میںگھسا اور ہماری اُمیدوں اور خوابوں کو بہا لے گیا۔
سوال یہ ہے کہ ہر بار ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں ہر بار ہم چند خیموں، چند بوریوں اور چند قرضوں پر اکتفا کر لیتے ہیں؟ 2010 کا سیلاب آیا، ہم نے قرض لئے۔ 2011 میں بھی یہی ہوا۔ 2022 کے بعد بھی یہی ہوا۔ آج بھی ہم وہی کر رہے ہیں۔ اربوں ڈالر کے قرض…. جو ادا کر تے کرتے ایک نسل قبروں میں جا سوئی …. دوسری قبر کے دھانے پر کھڑی ہے…. تیسری اسی بوجھ تلے جوان ہوئی ہے اور چوتھی نسل کو ہم اس بوجھ کو اٹھانے کیلئے تیار کر رہے ہیں…. اور اس کے عوض سکول، ہسپتال اور صاف پانی کے منصوبے قربان ہو رہے ہیں۔
یہ کیسا ظالمانہ کھیل ہے؟ جب ایک سیلاب آتا ہے تو ہم قرض لیتے ہیں تاکہ تعمیر نو کریں لیکن اس قرض کی رقم سے نئے ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاﺅن جیسے نئے تعمیراتی منصوبے شروع کر دیتے ہیں سیلاب زدگان کی چیخیں آہیں اور فریادیں اس شور میں دب جاتی ہیں ہم پھر نیا قرض لینے کیلئے اگلے سیلاب یا طوفان کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ ”سیلاب اور فراموشی“ کا یہ چکر آخرکب ٹوٹے گا؟
پانی کی طوفانی موجوں سے صرف گھروں کی دیواریں ہی نہیں گر تیں….کھیت کھلیان ہی برباد نہیں ہوتے….سڑکیں اور پل ہی نہیں ٹوٹتے….اُمیدیں بھی ٹوٹتی ہیں ،خواب بکھر جاتے ہیں اور انسانیت دم توڑتی دکھائی دیتی ہے…. جب کوئی ماں اپنے بچے کو پانی کی لپیٹ میںغوطے کھاتے بے بسی سے دیکھتی ہے تو یہ روح کا وہ زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ ایک باپ جب اپنے خاندان کو بے گھر دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں میں وہ خاموشی اتر جاتی ہے جو موت سے بھی بدتر ہے۔
2022 کے بعد ہونے والی تحقیقات نے بتایا کہ جن خاندانوں کو بروقت کونسلنگ اور نفسیاتی سہارا ملا وہ زیادہ جلدی سنبھل گئے لیکن اکثریت ایسی تھی جو برسوں تک خواب میں چیختی رہی۔ بچوں نے بارش کی آواز سے ڈرنا شروع کر دیا۔ عورتیں پانی دیکھتے ہی کانپنے لگیں مگر ان زخموں کو ہم کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے ہم صرف ٹوٹی سڑکوں کی مرمت کرتے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ردعمل کی سیاست چھوڑ کر تیاری کی سیاست کریں۔ ہمیں فوری انتباہی نظام درکار ہیں جو صرف کاغذ ی نہ ہوں بلکہ حقیقت میں کام کریں۔ ہمیں ایسے محکمے چاہئیں جو صرف موسم کی پیش گوئی نہ کریں بلکہ ضلعی سطح پر عملی ہدایات دیں کہ کب بند خالی کرنا ہے، کب گاوں کو منتقل کرنا ہے۔
ہمیں اپنے شہروں کو دوبارہ سانس لینے کا موقع دینا ہوگا۔ سیلابی میدانوں میں تعمیرات پر مکمل پابندی ہونی چاہئے۔ سبز پٹیاں فضول زمین نہیں، وہ ہماری دفاعی دیوار ہیں۔ اسلام آباد، لاہور اور راولپنڈی کو ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاﺅن جیسی کالونیوں کے بوجھ تلے گھٹنے نہیں دینا چاہئے۔
ہمیں اپنے معاشی ماڈل کو قرض کی لعنت سے آزاد کرنا ہوگا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک ”قومی کلائمیٹ ریزیلیئنس فنڈ“ بنایا جائے؟ اوورسیز پاکستانی، مخیر حضرات، زکوٰة، عطیات…. یہ سب سرمایہ اگر ایک منظم نظام میں لگے تو سیلابی دفاع اور نکاسی کے نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔یہ وہ سرمایہ ہے جو آج صرف خیموں اور عارضی امداد میں لگتا ہے۔ کاش یہ سرمایہ مضبوط گھروں، محفوظ بندوں اور بہتر نظاموں میں لگے تاکہ اگلی بار ہم صرف رونے پر مجبور نہ ہوں۔
آخر میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں ان پوشیدہ زخموں کا علاج کرنا ہوگا جو یہ سیلاب اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ ہمیں نفسیاتی مدد، سماجی معاونت اور کمیونٹی کے ساتھ کھڑا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ جب پانی اتر جائے تو کوئی خاندان خود کو تنہا محسوس نہ کرے۔یہ وہ سبق ہیں جو ہم پہلے ہی اپنی جانوں، اپنے روزگار اور اپنی نسلوں کی قیمت پر سیکھ چکے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کوئی مستقبل کا خطرہ نہیں …. یہ ہمارے دریاﺅں کی دھاڑ ہے….یہ ہمارے گھروں کی چھتوں پر برسنے والی بارش ہے۔ ہم نے کاربن کم چھوڑا لیکن بے حسی زیادہ دکھائی اور یہی بے حسی ہر بارش کو آفت بنا دیتی ہے۔
مون سون کو صرف ان جانوں کے لئے یاد نہ رکھا جائے جو بہہ گئیں بلکہ ان اسباق کے لئے بھی یاد رکھا جائے جو ہمیں آخرکار سیکھنے ہی پڑیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم خیموں اور کشتیوں کی سوچ سے آگے بڑھیں۔ تعمیرِ نو ایسی ہو جو اگلی نسل کے لئے ہو تاکہ وہ کبھی چھتوں پر کپڑے نہ لہرائیں…. کبھی ہیلی کاپٹروں کو پکار نہ سکیں۔
اے میرے وطن! کب تک تو یوں بہتا رہے گا؟ کب تک تو اپنے بچوں کی لاشیں گنتا رہے گا؟ کب تک تو قرض کے بوجھ تلے دبتا رہے گا؟ اب جاگ، اب بدل ورنہ ایک دن یہ دریا تیرا وجود بھی بہا لے جائیں گے۔
Leave A Reply

Your email address will not be published.