ایسا لگتا ہے ٹریفک پولیس نے سڑکوں کو تجاوزات مافیا اور ناجائز پارکنگ کے اڈے اور بنا نمبر پلیٹ سفر کرنے والے دہشت گردوں کی جنت بنا دیا ہے۔ ٹریفک پولیس افسران اپنی کمائی کے اڈے۔۔۔۔۔۔۔۔

0

وکٹران اب پاکستان میں! Your Partner for Reliable Power 🔋 in Pakistan. 🇵🇰 The Best Energy Saving Solution ⚡

ایسا لگتا ہے ٹریفک پولیس نے سڑکوں کو تجاوزات مافیا اور ناجائز پارکنگ کے اڈے اور بنا نمبر پلیٹ سفر کرنے والے دہشت گردوں کی جنت بنا دیا ہے۔ ٹریفک پولیس افسران اپنی کمائی کے اڈے بند کرنے کی بجائے ٹک ٹاک ویڈیوز اور میڈیا والوں کے ترلے منتیں کرکے فرمائشی انٹرویوز کے زریعے عوام، حکمرانوں اور احتساب کے اداروں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔ فرمائشی انٹرویوز میں بلند وبانگ دعوے اور بھڑکیں مارنے کا مقصد اپنی کمائی کے اڈوں سے توجہ ہٹانا ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ساڑھے چھے لاکھ رکشے ہیں جن میں سے تین لاکھ کے قریب لاہور میں ہیں۔
میں نے چند ماہ قبل بنا نمبر پلیٹ، مبہم اور غیرنمونہ نمبر پلیٹ رکشوں والوں کاسروے کیا تو ہر دوسرے رکشہ ڈرائیور کا کہنا تھا کہ وہ سیف سٹی اٹھارٹی کے آن لائن چالان سے بچنے کیلئے ٹریفک پولیس کی ملی بھگت سے مبہم اور بنا نمبر رکشہ چلاتے ہیں اور اس کے عوض مختلف علاقوں کے حساب سے 500سے لیکر 2000روپے تک روزانہ دیتے ہیں۔ اگر تین لاکھ رکشہ ڈرائیور میں سے محض ایک لاکھ رکشہ والے 1000روپیہ بھی دیں تو یہ رقم لگ بھگ دس کروڑ روپے روزانہ بنتی ہے۔ اگر رکشہ والوں کے الزامات جھوٹ ہیں تو پھر ان بنا نمبر پلیٹ رکشہ اور دیگر کمرشل گاڑیوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جارہی۔ آپ لاہور کی کسی بھی شاہراہ پر کھڑے ہوجائیں سو رکشوں کا جائزہ لیں، لوڈر 100میں سے 100بنا نمبر پلیٹ۔چنگ چی 100میں سے کم ازکم 90 کی بیک سائڈ پر نمبر پلیٹ نہیں ہوگی۔ رکشہ، ٹویٹا ہائی ایس، منی مزدہ, بس سمیت پبلک ٹرانسپورٹ میں سے شائد کسی ایک کی نمبر پلیٹ نمونہ کے مطابق ہو۔ موٹرسائیکل اور رکشہ سمیت بے شمار ٹرانسپورٹ والے فلیشر اور تیز لائٹ کا استعمال کررہے ہیں لیکن کسی کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جارہی۔ گذشتہ دنوں ایک سنئیر آفیسر کے ساتھ رائیونڈ جانے کا اتفاق ہوا تو جاتی عمرہ چوک پٹرول پمپ کے بالکل سامنے کم از بیس بغیر نمبر پلیٹ لوڈر اور مسافر بردار رکشے کھڑے تھے۔ یہ تین دفعہ کے وزیراعظم نواز شریف اور موجودہ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے گھر کی طرف جانے والی سڑک کے چوک کا عالم ہے۔ کیا بنا نمبر پلیٹ رکشے اور گاڑیاں سکیورٹی ٹھریٹ نہیں؟
اسسٹنٹ کمشنر، اے ڈی سی آر پولیس اور ٹریفک پولیس کی اپنی گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ ہیں جن کی نمبر پلیٹ ہیں انہوں نے بھی نمبر کے آگے راڈ لگا کر نمبر کو چھپایا ہوتا ہے۔ کیا یہ سول ملازمین کوئی خفیہ ایجنسی ہیں جو نمبر پلیٹ نہیں لگا رہے؟ بغیرنمبر پلیٹ گاڑی چاہے سرکاری ہو یا غیر سرکاری رکشہ ہو یا موٹر سائیکل سب کے خلاف ایف آئی آر دے کر پابند سلاسل کیا جائے۔
لاہور میں ہر طرح کی ٹریفک شامل کرکے کم وبیش روزانہ آٹھ لاکھ گاڑیاں ان اور آؤٹ ہوتی ہیں جبکہ میٹروپولیٹن ایریا میں 5لاکھ گاڑیاں سفر کرتی ہیں۔ ان13لاکھ میں سے کم از کم ایک تہائی موٹرسائیکل اور گاڑیاں کم از کم 5سے 7دفعہ مختلف جگہوں پر پارکنگ استعمال کرتی ہیں۔ اگر محض 100روپیہ پارکنگ فیس بھی رکھی جائے تو حکومت کو صرف لاہور سے چالیس کروڑ روزانہ، 12ارب ماہانہ 144ارب سالانہ صرف پارکنگ فیس کی مد میں آمدن ہوسکتی ہے۔ پنجاب کے 5446ارب کے سالانہ بجٹ کے برابر رقم 41اضلاع کی پارکنگ فیس سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ٹریفک پولیس کی مبینہ سرپرستی کی بدولت پرائیویٹ پارکنگ مافیا صرف لاہور سے اربوں روپے ماہانہ بطور پارکنگ فیس اکٹھی کررہا ہے جبکہ دیگر اضلاع میں تو سرکاری پارکنگ کا کوئی نظام ہی نہیں ساری رقم ہی ٹریفک پولیس اور پرائیویٹ پارکنگ مالکان کی جیبوں میں جا رہی ہے۔ اس سے بڑی لاقانونیت کیا ہوگی کہ موجودہ سی ٹی او کے دور میں ٹریفک پولیس لاہور پارکنگ کمپنی کے ملازمین کو سرکاری پارکنگ فیس وصول کرنے پر زدوکوب کرتی ہے اور ان کے خلاف ایف آئی آرز کرواتی رہی ہے جبکہ غیر قانونی پرائیویٹ پارکنگ فیس وصول کرنے والے آزاد ہیں۔
پولیس ناکوں پر تعینات اہلکار ایک ایک گاڑی کو روک کر سونگھتے ہیں اور ہر گزرنے والے کا ایکسرے کرتے ہیں انکو بلانمبر پلیٹ گاڑیاں کیوں نظر نہیں آتی۔
مریم نواز حکومت کو چاہئے کہ سختی اور آہنی ہاتھوں سے ہر طرح کی غیرقانونی پارکنگ اور تجاوزات کا خاتمہ کروائیں۔ تمام چھوٹے بڑے شاپنگ مال اور پارکنگ سٹینڈ بغیر رجسٹریشن سو روپے سے لیکر پانچ سو روپے فی گھنٹہ کے حساب سے غیر قانونی پارکنگ فیس وصول کررہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہورہی۔خطرناک پہلو یہ ہے کہ پرائیویٹ مافیا سرکاری جگہوں پر غیر قانونی پارکنگ فیس صول کررہا ہے۔ مین شاہراؤں اور رہائشی علاقوں میں قائم پرائیویٹ دفاتر نے غیر قانونی پارکنگ سے سڑکیں اور گلیاں بند کی ہوتی ہیں لیکن ان کے خلاف کاروائی نہیں کی جارہی۔ مبینہ طور پر ان تمام غیر قانونی پارکنگ سے بھی منتھلی لی جاتی ہے اگر منتھلی نہیں لیتے تو پھر کاروائی کیوں نہیں ہوتی۔
ٹریفک پولیس کی کرم نوازی کا نتیجہ ہے کہ ہمیں پارکنگ کے لیے جگہ نہیں ملتی لیکن والٹ پارکنگ والے اسی جگہ گاڑی پارک کر لیتے ہیں اور ٹریفک پولیس کوئی کاروائی نہیں کرتی اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ٹریفک پولیس ناجائز پارکنگ مافیا کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ سڑک اور بازار کے دونوں اطراف روڈ پر موجود غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے سو فٹ چوڑی سڑک بامشکل 15فٹ باقی رہ جاتی ہے۔تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے بیس منٹ کا فاصلہ پچاس منٹ میں طے ہورہا ہے۔
حکومت کو اپنی رٹ بحال کرنا ہوگی دکانداروں کو بتانا ہوگا کہ صرف دکان تمہاری ہے نہ کہ سامنے والا فٹ پاتھ اورسڑک۔ کسی کو بھی سرکاری پارکنگ فیس کے بغیر گاڑی پارک کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔

ملک سلمان

Leave A Reply

Your email address will not be published.