اسلام آباد:بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک)نے سوشل پالیسی اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر (ایس پی ڈی ایس)کے اشتراک سے ”دی پرائس آف ہیلتھ سگریٹ ٹیکس سیمولیشن ماڈل 2025-26 کا آغاز”کردیا۔ یہ ماڈل شواہد پر مبنی تجاویز فراہم کرتا ہے کہ موثر تمباکو ٹیکسنگ کس طرح عوامی صحت کے نتائج کو بہتر بنا سکتی ہے اور حکومت کے لیے آمدن کاذریعہ بن سکتی ہے،اس ماڈل کے مطابق اگر حکومت آئندہ مالی سال میں فی پیک سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی)میں 39 روپے کا اضافہ کرے تو 67.4 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل ہوگا،جمعرات کو یہاں ایک مقامی ہوٹل میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سوشل پالیسی اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد آصف اقبال نے ماڈل پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ جرات مندانہ اقدامات کرے تاکہ تمباکو نوشی سے متعلق صحت کے خطرات سے نمٹتے ہوئے اربوں روپے کی ممکنہ آمدنی حاصل کی جا سکے۔
39 روپے کے ایف ای ڈی اضافے سے 67.4 ارب روپے حاصل ہوں گے جس میں58.2 ارب روپے ایف ای ڈی سے اور 9.2 ارب روپے جی ایس ٹی سے ملیں گے۔ فروری 2023 کے بعد ایف ای ڈی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، اور مہنگائی کی وجہ سے سگریٹ کی قیمت میں کمی آئی ہے، جس سے یہ مزید سستے ہو گئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سگریٹ کی قیمتیں دنیا کے کئی دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہیں۔ واضح شواہد موجود ہیں کہ تمباکو پر زیادہ ٹیکس لگانے سے تمباکو نوشی میں کمی آتی ہے اور حکومتی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ سال پاکستان میں 490,000 مزید افراد تمباکو نوشی کی جانب راغب ہوسکتے ہیں،انہوں نے کہاکہ حکومت کو عوامی صحت کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے۔آصف اقبال نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں غیر قانونی مارکیٹ کے حجم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں، اپنی فروخت کو کم ظاہر کرتی ہیں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو پر ٹیکس میں کمی کے لیے دبا ئوڈالتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ فروری 2023 میں کیے گئے ٹیکس میں اضافہ ایک "ون-ون” پالیسی ثابت ہوااس سے سگریٹ نوشی میں 19 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی جبکہ ایف ای ڈی اورجی ایس ٹی کی مد میں حاصل شدہ آمدنی 2022-23 میں 179 ارب روپے سے بڑھ کر 2023-24 میں 298 ارب روپے ہو گئی۔
ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مطیع الرحمن نے پاکستان میں تمباکو کے صحت پر اثرات سے متعلق تشویشناک اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے بتایاکہ ہر سال 160,000 سے زائد اموات تمباکو سے جڑی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ملک بھر میں 3.16 کروڑ بالغ افراد تمباکو استعمال کرتے ہیں، جن میں 1.73 کروڑ سگریٹ نوش شامل ہیں۔ روزانہ تقریبا 1,200 بچے جن کی عمر 10 سے 14 سال ہے، سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں۔ پاکستان میں تمباکو نوشی سے معیشت پر 615.07 ارب روپے کا بوجھ پڑتا ہے، جو ملکی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے۔نیشنل ایکشن اینڈ کوآرڈینیٹنگ گروپ اگینسٹ وائلنس اگینسٹ ویمن اینڈ چلڈرن (این اے سی جی)کے چیئر اور یونائیٹڈ گلوبل آرگنائزیشن آف ڈیولپمنٹ (یوجی او او ڈی)کے سی ای او سید اشتیاق گیلانی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بجٹ 2025-26 میں مجوزہ ٹیکس میں اضافہ ترجیحی بنیادوں پر نافذ کرے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایف ای ڈی میں اضافہ نہ صرف معاشی ترقی کو فروغ دے گا بلکہ تمباکو نوشی میں کمی لا کر قیمتی جانیں بھی بچائے گا۔ یہ اقدام پاکستان کو صحت مند اور خوشحال مستقبل کی جانب لے جائے گا۔ ہماری آنے والی نسلوں کی صحت دا ئو پر لگی ہے، اور یہ ایک چیلنج ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔سپارک کے پروگرام مینیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے اپیل کی کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کو ایک ایسی صنعت سے بچانے کے لیے متحد ہو جائیں جو ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ ایک باقاعدہ اور مسلسل پالیسی ہونی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سگریٹ کی سستی قیمت بچوں اور نوجوانوں کو تمباکو نوشی کی طرف راغب کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔وزارت خزانہ کے نمائندگان، سول سوسائٹی کے اراکین، عوامی صحت کے ماہرین، اور صحافیوں نے بھی اس تقریب میں شرکت کی اور تمباکو سے متعلق اہم مسائل، خاص طور پر ٹیکسیشن، پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔