اسلام آباد: حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنے مطالبات باضابطہ تحریری شکل میں پیش نہیں کرتی، تو مذاکراتی عمل مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی افسوس ظاہر کیا کہ 12 دن گزر جانے کے باوجود پی ٹی آئی نے مشترکہ اعلامیے میں کیے گئے وعدوں کے مطابق اپنے مطالبات تحریری طور پر نہیں پیش کیے۔
ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 23 دسمبر کو ہونے والی پہلی میٹنگ میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے مطالبات تحریری شکل میں حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھے گی، اور اس وعدے کا ذکر مشترکہ اعلامیہ میں بھی کیا گیا تھا۔ تاہم 2 جنوری کو ہونے والی ملاقات میں وہ مطالبات پیش نہیں کیے گئے۔ حکومتی ٹیم کو بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کو عمران خان سے مشاورت کے لیے ایک اور موقع دیا جائے گا تاکہ وہ اپنے مطالبات کو حتمی شکل دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر تیسری میٹنگ میں بھی پی ٹی آئی کی جانب سے ‘چارٹر آف ڈیمانڈزپیش نہیں کیا جاتا، تو مذاکراتی عمل میں مزید مشکلات آ سکتی ہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید وضاحت کی کہ حکومت نے پی ٹی آئی کو عمران خان اور دیگر قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے جوڈیشل کمیشنز کے قیام سمیت دیگر مطالبات کے لیے سہولت فراہم کی ہے، تاہم پی ٹی آئی نے 45 لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے کوئی ٹھوس معلومات فراہم نہیں کیں۔پی ٹی آئی سے ان 45 لاپتہ افراد کے بارے میں تفصیلات طلب کیں، لیکن ہمیں بتایا گیا کہ ان کے پاس ان افراد کے نام اور پتے نہیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت ان افراد کا سراغ کیسے لگا سکتی ہے؟” سینیٹر نے کہا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ حکومت یا کسی ادارے کی جانب سے عمران خان کو اڈیالہ جیل سے بنی گالا یا کسی اور جگہ منتقل کرنے کی کوئی پیشکش نہیں کی گئی، اور نہ ہی اس وقت کوئی پس پردہ مذاکراتی عمل جاری ہے۔انھوں نے کہا کہ تیسری مذاکراتی میٹنگ کی تاریخ پی ٹی آئی کی جانب سے فراہم کی جائے گی۔