جی 13اور14 کے رہائشیوں کا ٹینکر مافیا اوردارلحکومت کو تقسیم سے نجات دلانے کا مطالبہ

0

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاوسنگ اتھارٹی اور کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذمہ اپنے اپنے سیکٹر جی تیرہ، جی چودہ، آئی گیارہ، بارہ تیرہ چودہ کے رہائشیوں کو پانی مہیا کرنا ہے اس کیلئے خان پور ڈیم سے آنے والی پختہ کنکریٹ نہر سے سنگ جانی کے مقام سے پانی بذریعہ پائپ لائن حاصل کرنا تھا جبکہ راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ بذریعہ جی ٹی روڈ پائپ لائن پانی اسی مقام سے حاصل کررہا ہے۔

سی ڈی اے نے اپنے سیکٹر کیلئے دو پائپ لائن بچھانی تھیں۔ سی ڈی اے نے جی ٹین کی پائپ لائن مکمل کر لی جبکہ جی تیرہ اور چودہ کی پانی پائپ لائن کا منصوبہ بن گیا تو یہ سیکٹر ایف جی ای ایچ اے نے لے لیا تو سی ڈی اے نے پائپ لائن بچھانے سے ہاتھ کھینچ لیا کہ پراپرٹی ٹیکس ، پانی وغیرہ کی رقوم ہاوسنگ اتھارٹی وصول کرے گی تو خرچہ وہ کیوں کریں۔ خرچہ وہ ہی کریں ،ہم آئی سیکٹر ز کیلئے پانی لینے میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔

سی ڈی اے اور ہاوسنگ اتھارٹی کے درمیان کئی اجلاس ہوئے اور طے پایا کہ سی ڈی اے اور ہاوسنگ اتھارٹی اپنے اپنے علاقے میں دونوں ادارے اپنے ٹھیکے داروں سے پائپ لائن بچھوائیں گے (تاکہ کمیشن میں بھی حصہ رہے )اور ہاوسنگ اتھارٹی پائپ لائن بچھانے اور زمین پر قابضین اور رہائشیوں کو پائپ لائین گزارنے کیلئے رقوم ادا کرنے کیلئے سی ڈی اے کو 26 کروڑ روپے دے گی جسکی پہلی قسط دس کروڑ روپے اپریل 2023 سی ڈی اے کو ادا کر دی گئی۔ سی ڈی اے کا دعوٰی ہے کہ اُس نے ستر فیصد کام مکمل کرلیا ہے، اور تین خطوط لکھ چکا مزید رقم دیں ، مگر ہاوشنک اتھارٹی خاموش ہے ۔جی تیرہ کے رہائشیوں کو پانی پہنچانے کیلئے ہاوسنگ اتھارٹی نے بھی پائپ لائن بچھائے مگر درج ذیل تین جگہ سے بچھائے گئے پائپ لائن کو (مسنگ لنک) کے طور پر خود چھوڑ دیا گیا۔
نمبر 1 – شاہ اللہ دتہ ڈی تیرہ 48
انچ قط پائپ لائن 1300 میٹر
نمبر 2 ۔ D/12-1سے E-12 ۔48 انچ قطر پائپ لائن 1000 میٹر
نمبر 3 – جی 14 مائو ایریا مین ٹینیک سے G/13-2سٹریٹ 24 نزد سنبل پولیس اسٹیشن سب ٹینک یہ علاقہ کلی طور پر ہاوسنگ اتھارٹی کا علاقہ اور زیر قبضہ ہے مگر اسکا کئی سالوں سے ٹینڈر نہیں کیا گیا۔ جبکہ باقی دو مسنگ لنک سمیت سب کا ٹنڈر ٹھیکہ مدتوں سے ہوچکا ہے۔ اور ٹینکر مافیہ صرف پائپ لائن کی جگہ کے دو درجن مکینوں کو کئی بار معاہدہ ہونے کے باوجود اکساتا ہے اور ہاوسنگ اتھارٹی طے کرنے کے باوجود ان کو رقم ادا نہیں کرتی (جبکہ پائپ لائن بچھنے کے بعد جگہ انکی ہی ہوگی اور وہ حسب سابق تعمیرات کر لیں گے )تاکہ مفت سی ڈی اے سے حاصل کردہ پانی بذریعہ ٹینکر سپلائی (کیرج )کیلئے کروڑوں روپے وصول کرتےرہیں ، در پردہ سالوں سے اتھارٹی کے لوگ اس میں ملوث ہیں۔ ٹینکر مافیہ بھی انھوں نے بنا رکھا ہے۔

تین مسنگ لنک کو مکمل کرکے ہاوسنگ اتھارٹی کروڑوں روپے بچا کر سیکٹر کے رہائشیوں کو پانی کی عدم دستیابی کے عذاب سے نکال سکتی ہے، جس کیلئے وہ سالوں سے احتجاج کر رہے ہیں جو ہاوسنگ اتھارٹی کو ماہانہ بل ادا کرنے کے باوجود اتھارٹی سے پانی کے فی ٹینکر مبلغ چودہ سو روپے بھی ادا کرتے ہیں جبکہ پانی مہیا کرنا انکی قانونی اخلاقی ذمہ داری ہے جبکہ ٹینکر مافیا تین ہزار وپے مکینوں سے پرائیویٹ وصول کرتا ہے۔ کیونکہ اتھارٹی سے پانی وصول کرنے کی طویل قطار کا انتظار کرنا پڑتا ہے، اور سفارش بھی ۔ہاوسنگ اتھارٹی نے رہائشیوں کو پانی نہ ہونے کے باوجود جبری خط اور جرمانے کرکے تعمیرات کروائیں اور نوٹس دیئے کہ تعمیرات نہ کرنےوالوں کے پلاٹ منسوخ کردیئے جائیں گے اور تاخیر سے تعمیر پر لاکھوں روپےجرمانہ وصول کرتا ہے۔ جو کہ خلاف فطرت، خلاف قانون اور ظلم ہے۔ ہاوسنگ اتھارٹی ابھی پانی بذریعہ ٹینکر سی ڈی اے وغیرہ سے مفت لے کر کیرج کے تقریباً ستر کروڑ روپے ادا کرکے ایک زمین دوز ٹینکر میں ڈلواتی ہے پھر بذریعہ پمپ ہفتے میں ایک دو بار مکینوں کو پانی دیا جاتا ہے۔

جس کو روزانہ دورانیہ کبھی ایک گھنٹہ کبھی آدھا گھنٹہ ہوتا ہے۔ جو پانی کے میسر ہونے پر منحصر ہوتا ہے۔ پانی بذریعہ ٹینکر فروخت کرنے کیلئے اتھارٹی ایک ایپ دن ایک سے دو بجے ایک گھنٹے کیلئے کھولتی ہے جبکہ انہی ٹینکر سے پرائیویٹ پانی تین چار ہزار فی ٹینکر وصول کیا جاتا ہے۔ یہ بات حیرت سے کم نہیں کہ وفاقی دارلحکومت کو سی ڈی اے کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنرل باجوہ کی ہدایت پر سیاست دانوں نے بذریعہ باجورہ دارلحکومت کو تقسیم کرکے سی ڈی اے کے علاوہ ایک اتھارٹی بنا دی گئی۔ جبکہ یہ ہاوسنگ فاونڈیشن تھی جبر سے اتھارٹی بنا دی گئی۔

رہائشیوں سے ہوسنگ اتھارٹی پراپرٹی ٹیکس وصول کرتی ہے، جسکا کوئی نوٹفکیشن نہی ہے جبکہ سی ڈی اے الگ سے رہائشیوں کو پراپرٹی ٹیکس ادا کرنے کے نوٹس جاری کررہا ہے۔ وفاقی حکومت اسلام آباد کیلئے بجٹ سے بزریعہ سی ڈی اے خطیر رقم وفاقی شہریوں پر خرچ کرتی ہے۔ وہ بذریعہ سی ڈی اے ہی ہو سکتا ہے جبکہ سیکٹر G-13/14 کے مکین ہاوسنگ اتھارٹی کے ماتحت اس سے محروم رہتے ہیں ۔

محض ڈنڈے کے زور پر سی ڈی اے کے مقابلے ایک نیا ہاتھی کھڑا کر دیا گیا ہے۔ جس نے اپنا ڈپٹی کمشنیر لینڈ بھی رکھ لیا ہے۔ کیا اب اسلام آباد کے دو مئیر ہونگے ہاوسنگ اتھارٹی کیلئے وفاقی حکومت سے شہریوں کیلئے بجٹ کا حصہ کیسے ملے گا اور عملے بھی سی ڈی اے سے زیادہ بھرتی کرکے عوام اور قومی خزانے پر پی آئی اے کی طرح بوجھ لاد دیاگیا ہے اسلام آباد کے سیکٹر جی تیرہ ، چودہ کے شہریوں کو نئے ہاتھی سے نجات دلوائی جائے۔جنرل باجوہ جا چکا

Leave A Reply

Your email address will not be published.