میں مہاجرینِ کشمیر مقیم پاکستان کی آزاد کشمیر اسمبلی میں نمائندگی اور نوکریوں میں کوٹہ کے بارے میں کئی بار لکھ چکا ہوں۔ یہ بات کسی ذاتی مخالفت یا حمایت کی بنیاد پر نہیں بلکہ انصاف، جمہوری اصولوں اور آئینی تقاضوں کے تحت کہی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام اب ایک بدعت بن چکا ہے، جس کے براہِ راست اور بالواسطہ مستفید ہونے والوں کے علاوہ عام عوام کے لیے یہ ایک جذباتی، سیاسی، اخلاقی اور قانونی مسئلہ بن گیا ہے۔
یہ لاوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اس کی ایک جھلک 2024ء میں دیکھی گئی جب عوامی ایکشن کمیٹی نے پہیہ جام ہڑتال کے بعد حکومت سے اپنے مطالبات منوائے۔ اسی سال بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کو غیر منصفانہ کوٹہ سسٹم کے خلاف عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار چھوڑ کر جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ آزاد کشمیر میں بھی نمائندگی اور کوٹہ کے خلاف عوامی ردعمل میں روز بروز شدت آ رہی ہے، جبکہ اس کے فائدہ اٹھانے والے فریق صورتِ حال کو ٹکراؤ کی طرف لے جا رہے ہیں۔
آئینی دائرہ کار اور ذمہ داری
اس مسئلے کی بنیادی ذمہ داری حکومتِ پاکستان پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ آزاد کشمیر کا آئینی ڈھانچہ اسی کا بنایا ہوا ہے، اور اس سے پیدا ہونے والے تمام نتائج کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے۔ آزاد کشمیر کا آئین اپنے دائرے میں صرف یہاں کی بہتر حکمرانی اور انتظامیہ کے لیے ہے۔ اس کے تحت نہ اسمبلی اور نہ حکومت کو کشمیر ایشو یا یو این قراردادوں میں کوئی کردار دیا گیا ہے، جیسا کہ معاہدہ کراچی، دفعہ 31(3)، دفعہ 19، دفعہ 56 اور تیرہویں آئینی ترمیم میں واضح ہے۔ جب کسی ادارے کے پاس اختیار ہی نہیں تو یہ نمائندگی اور کوٹہ کس آئینی بنیاد پر قائم ہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی علاقے کا رہائشی نہ ہو، وہاں کے قوانین کا پابند نہ ہو، ٹیکس نہ دیتا ہو، وسائل استعمال نہ کرتا ہو، اور پھر بھی اس علاقے کی حکومت اور وسائل پر اختیار رکھے؟ آزاد جموں و کشمیر میں یہی غیرمنصفانہ صورتِ حال پون صدی سے جاری ہے۔
پس منظر اور وجوہات
1947ء اور اس کے بعد لاکھوں کشمیری باشندے جان و مال بچا کر ہندوستان کے مقبوضہ علاقوں سے پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں آباد ہوئے۔ پاکستان میں بسنے والے اکثر مہاجرین اثر و رسوخ رکھنے والے اور مسلم کانفرنس سے وابستہ تھے۔ ان کا پاکستان اور آزاد کشمیر کے کسی حصے میں حلقہ انتخاب نہیں تھا لیکن پاکستان نے آزاد کشمیر میں اپنی گرفت مضبوط کرنے لئے یہ اہم تریں اثاثہ تھے جن کی سکونت پاکستان میں لیکن سیاسی گرفت آزاد کشمیر میں ہونے کی وجہ سے انہیں وزارتِ کشمیر امور کے ذریعے آزاد کشمیر کی اقتدار کی سیاست میں چوہدری غلام عباس صاحب مرحوم کے اثر رسوخ کی وجہ سے شامل کیا گیا۔ 1960ء میں بنیادی جمہوریتوں کے قانون کے تحت یہ عمل کے ایچ خورشید صاحب کی وجہ سے باضابطہ قانونی حیثیت اختیار گی اور 1974ء کے عبوری آئین میں اس کو آئینی تحفظ ملا۔
ظاہری وجہ یہ بتائی گئی کہ آزاد کشمیر پوری ریاست کا “بیس کیمپ” ہے اور مہاجرین کو نمائندگی اس لیے دی گئی کہ وہ پوری ریاست کی ترجمانی کریں۔ لیکن پس پردہ اصل وجہ یہ تھی کہ حکومتِ پاکستان آزاد کشمیر کی برادری سیاست پر براہِ راست کنٹرول چاہتی تھی، اور یہ مہاجر نمائندے اس کے لیے بہترین ذریعہ بلکہ اثاثہ بن گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک آزاد کشمیر کی حکومتیں انہی نمائندوں کے ذریعے بنائی اور گرائی جاتی ہیں۔
دوہرا معیار اور ناانصافی
پاکستان میں آباد ان مہاجرین کو پاکستانی شہریت، شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ووٹ کا حق، زمین کی ملکیت، کاروبار، اور تمام شہری سہولیات حاصل ہیں۔ اس کے باوجود انہیں آزاد کشمیر اسمبلی میں نشستیں اور ملازمتوں میں 25 فیصد کوٹہ دیا جاتا ہے، جبکہ یہاں کے مقامی نوجوان انہی حقوق سے محروم رہتے ہیں۔ یہ کھلا استحصال اور نیو کالونیلزم کی بدترین شکل ہے۔
دنیا کی کوئی جمہوریت اس قسم کی مثال پیش نہیں کر سکتی جہاں غیر رہائشی افراد کو کسی علاقے کی قانون سازی اور وسائل پر اختیار ہو۔ یہ نظام دراصل سیاسی رشوت کو آئینی تحفظ دے کر عوام کو اس مفروضے پر یرغمال بناتا ہے کہ رائے شماری کے وقت یہ ووٹ دیں گے۔
رائے شماری کا مفروضہ اور عالمی حقائق
یو این قراردادوں کو بنیاد بنا کر کہا جاتا ہے کہ ان مہاجرین کو رائے شماری میں ووٹ کا حق حاصل ہے، اس لیے نمائندگی بھی ضروری ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے مقرر کردہ نمائندوں نے رائے شماری کو قابلِ عمل نہیں سمجھا اور دیگر پرامن راستے تجویز کیے۔ آج کی دنیا میں قراردادیں محض کاغذی حیثیت رکھتی ہیں، جیسا کہ افغانستان، فلسطین، شام اور کشمیر کے حالات سے واضح ہے۔
بھارت نے دفعہ 35A کی منسوخی کے بعد لاکھوں غیر کشمیریوں کو شہریت دے دی ہے۔ اس صورتحال میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو قربانی کا بکرا بنانا ناقابلِ قبول ہے۔ حل صرف پاکستان کی دفاعی، سیاسی اور معاشی قوت میں ہے، نہ کہ مفروضوں پر مبنی نمائندگی کے اس نظام میں۔
ریاستی باشندہ کے قانون 1927 اور ان میں 1932 میں ترمیم میں بھی یہ بالصراحت درج ہے کہ ریاستی باشندہ ریاست سے باہر رہنے کی صورت میں صرف دوسری نسل تک ریاستی باشندہ رہ سکتا ہے اور ریاست سے باہر ( Foreign country ) میں آباد ریاستی باشندہ ریاست کے اندرونی حقوق کا مستحق نہیں ہوگا-
مقامی عوام کی حق تلفی
آزاد کشمیر کے باسی روزانہ سرحدی گولہ باری، محدود وسائل، بے روزگاری، اور بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا کرتے ہیں۔ ایسے میں غیر مقامی افراد کو اسمبلی اور ملازمتوں میں کوٹہ دینا مقامی نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
حل اور تجاویز
1. اگر نمائندگی ضروری سمجھی جاتی ہے تو مہاجرین کے لیے بغیر ووٹ کے صرف ایک نشست رکھی جائے، جس پر حریت کانفرنس نامزدگی کرے۔
2. پاکستانی صوبوں میں آباد ریاستی باشندوں کے شناختی ریکارڈ میں “مہاجر کشمیر” درج کیا جائے تاکہ ان کی اصل شناخت قائم رہے۔
3. آزاد کشمیر میں تمام کوٹے ختم کر کے نوکریاں اور مواقع صرف میرٹ پر دیے جائیں۔
4. اگر مہاجرین پاکستان میں کسی حق سے محروم ہیں تو حکومتِ پاکستان وہ حق براہِ راست دے، نہ کہ آزاد کشمیر کے بجٹ سے۔
5. جو مہاجرین واپس آ کر بسنا چاہیں، انہیں آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان میں آباد کیا جائے۔
وقت آ گیا ہے کہ حقائق کی دنیا میں رہ کر فیصلے کیے جائیں۔ آزاد کشمیر کی سیاست اور معیشت کو اس غیرمنصفانہ نظام سے آزاد کیا جائے، تاکہ یہاں کے عوام اپنی قسمت کے مالک خود بن سکیں۔