افسوس! ہم نے کرکٹ کھو دی ہے… وہی کرکٹ جو کبھی ہماری پہچان تھی، جس کی رونق سے گلیاں آباد تھیں، جس کی دھول میں دوستیوں اور غیرتوں کے چرچے تھے۔ آج ہمارے شہروں اور دیہاتوں میں نہ کھیل کے میدان بچے ہیں اور نہ کھیلنے کا وقت۔
موبائل کا اسیر معاشرہ
اب ہماری نئی نسل کے پاس کھیلنے کو صرف ایک چیز رہ گئی ہے — موبائل فون۔
ہمارے ہاتھوں سے گیند چھن گئی، بیٹ چھن گیا، گراونڈ چھن گئے، اور ان سب کی جگہ ایک چھوٹی سی اسکرین نے لے لی۔ جو نسل کبھی پسینہ بہا کر صحت مند بنتی تھی، وہ اب انگلیوں کے ورزش سے تھکنے لگی ہے۔
فکرِ معاش سے فکرِ اسٹیٹس تک
ہماری فکرِ معاش دم توڑ چکی ہے۔ اب فکر صرف "اسٹیٹس” کی ہے۔
ہم برانڈ کے جوتے، برانڈ کے کپڑے، برانڈ کی گھڑیاں اور برانڈ کے موبائل خرید کر خود کو کامیاب سمجھنے لگے ہیں۔
محنت، پسینہ اور دھوپ ہمیں پرانی بات لگتی ہے۔ دکھاوا ہماری نئی حقیقت ہے۔
برانڈڈ غلام اور ڈیجیٹل قیدی
ہم صحت مند کھیلوں سے بھاگ کر "برانڈڈ غلام” اور "ڈیجیٹل قیدی” بن گئے ہیں۔
جو نسل کبھی میدان میں پسینے بہاتی تھی، وہ آج موبائل کی اسکرین پر انگلیاں گھما کر خود کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ وہ نسل ہے جو کھیل سے دور اور شوبازی کے قریب ہے۔
یہ وہ نسل ہے جو جسمانی طاقت کے بجائے ڈیجیٹل لائکس پر جینے لگی ہے۔
—
فوج اور کھیل — ایک ہی سفر
یاد رکھیے، فوج اور کھیل دونوں کا کام ایک ہی ہے: ایک مضبوط اور غیرت مند قوم تیار کرنا۔
فوجی سرحد پر لڑتا ہے اور کھلاڑی میدان میں۔
فوجی اپنی جان دیتا ہے، کھلاڑی اپنا پسینہ۔
اگر ہمارے کھیل کے میدان خالی ہیں تو یقین جانیے یہ خالی پن کل ہمارے دفاع میں بھی نظر آئے گا۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت ایسی قوم کو سنجیدہ نہیں لیتی جو اپنے بچوں کو صرف موبائل کا اسیر بنا دے۔
کھیل کا زوال — اعداد و شمار کی زبان میں
پاکستان ۲۴ کروڑ آبادی رکھتا ہے مگر ۲۰۲۴ اولمپکس میں صرف ۷ کھلاڑی شریک ہوئے۔
کرکٹ کے سوا باقی کھیلوں کا حال یہ ہے کہ ہاکی، کبڈی، باکسنگ اور ایتھلیٹکس کا نام بھی نئی نسل کو اجنبی لگتا ہے۔
ملک بھر میں ۵۰ فیصد سے زائد اسکولوں کے پاس کھیل کے میدان ہی موجود نہیں۔
یہ وہ حقائق ہیں جو ہمیں چیخ چیخ کر یاد دلا رہے ہیں کہ ہم اپنی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
کیا کیا جائے؟
اب بھی وقت ہے۔ اگر ہم چاہیں تو کھیل واپس آ سکتے ہیں۔
1. ہر تحصیل میں ایک اسپورٹس کمپلیکس لازمی بنایا جائے۔
2. کھیل کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، جیسے ریاضی اور سائنس ہے۔
3. نجی شعبہ، فوج اور حکومت مل کر کھیلوں کے لیے فنڈ قائم کریں۔
4. میڈیا کھیلوں کو سنسنی اور اسٹیٹس کے بجائے عزت اور فخر کی علامت بنائے۔
ورنہ…
ورنہ ہم صرف کرکٹ نہیں، اپنی آنے والی نسلیں بھی ہار دیں گے۔
ہم ایک ایسی قوم بن جائیں گے جو نہ جسمانی طاقت رکھتی ہے، نہ اخلاقی جرات۔
ہماری آنے والی نسل صرف برانڈ، اسٹیٹس اور موبائل کی غلام ہوگی۔