افغانستان میں طالبان حکومت کی تعلیمی اور فکری پالیسیوں کے حوالے سے ایک بار پھر تشویشناک صورتحال سامنے آئی ہے اور مختلف تحقیقی اداروں نے ان اقدامات پر شدید سوالات اٹھائے ہیں۔ مقامی میڈیا اور تحقیقی رپورٹس کے مطابق طالبان نے یونیورسٹیوں کی نصابی کتب سمیت سینکڑوں عوامی کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں تعلیمی اور علمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
بھارت امریکا تعلقات میں سردمہری، بھارتی ارب پتی شخصیات براہ راست متاثر
دی افغانستان اینالیسٹس نیٹ ورک (AAN) کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے یونیورسٹی سطح کی 670 سے زائد نصابی کتب اور بڑی تعداد میں عمومی مطالعے کی کتابوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ان ممنوعہ کتب میں انسانی حقوق، جمہوریت، آئینی قانون، انتخابی نظام، سوشیالوجی اور فلسفۂ اخلاق جیسے اہم مضامین شامل ہیں، جنہیں یا تو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے یا ان کے مواد کو شدید حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس پابندی کی زد میں خواتین مصنفین اور ایرانی لکھاریوں کی کتابیں بھی آئی ہیں۔ افغان اخبار ہشت صبح کا کہنا ہے کہ اہم تاریخی اور سیاسی موضوعات پر مبنی کتب پر پابندی کے باعث اب افغانستان میں علمی تحقیق اور آزادانہ مطالعہ تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
تحقیقی اداروں کا موقف ہے کہ ان اقدامات کا بنیادی مقصد معلومات تک عوامی رسائی کو روکنا، تاریخی حقائق کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرنا اور فکری آزادی پر سخت پہرے بٹھانا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس قسم کی پالیسیاں افغانستان کے علمی ماحول کو طویل المدتی بنیادوں پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے صورتحال انتہائی سنگین بتائی گئی ہے۔ یونیسف کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سال 2025 میں افغانستان میں 21 لاکھ 30 ہزار سے زائد بچے اسکولوں سے باہر رہے، جن میں 60 فیصد لڑکیاں شامل ہیں، جبکہ 22 لاکھ نوجوان خواتین ثانوی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ طالبان کی ان تعلیمی پابندیوں سے نہ صرف افغانستان کی سماجی و فکری ترقی رک جائے گی بلکہ اس سے نوجوانوں میں انتہاپسندی کے رجحانات بڑھنے کا بھی خطرہ ہے، جس کے منفی اثرات ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں سیکیورٹی بحران اور صحافت پر پابندیوں کے حوالے سے بھی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن میں افغانستان کو جنوبی ایشیا کا غیر محفوظ ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔