چین نے امریکا اور روس کے ساتھ سہ فریقی ایٹمی مذاکرات میں شمولیت کے امکان کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے انکار کر دیا۔

رپورٹ کے مطابق چین نے بدھ کو کہا کہ وہ امریکا اور روس کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق مذاکرات میں حصہ نہیں لے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کہ وہ بیجنگ کو بھی مذاکرات میں شامل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے پیر کے روز کہا تھا کہ امریکا دونوں ممالک کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے پر بات چیت کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کے خیال میں ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ ایک بہت بڑا مقصد ہے، روس اس کے لیے تیار ہے اور ان کا خیال ہے کہ چین بھی تیار ہو جائے گا۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ ہم ایٹمی ہتھیاروں کو پھیلنے نہیں دے سکتے اور ہمیں انہیں روکنا ہوگا۔
سرد جنگ کے پرانے حریف روس اور امریکا دنیا کے تقریباً 90 فیصد ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں، تاہم 2023 میں ماسکو نے واشنگٹن کے ساتھ باقی رہ جانے والے آخری ہتھیاروں پر قابو پانے کے معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
جب ٹرمپ کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جی آکون نے بدھ کو کہا کہ امریکا اور روس کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات میں چین کی شرکت نہ تو معقول ہے اور نہ ہی حقیقت پسندانہ۔
انہوں نے کہا کہ ایٹمی صلاحیت کے لحاظ سے چین اور امریکا ایک سطح پر بالکل نہیں ہیں، سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کو ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
بیجنگ نے کہا کہ وہ اصولی طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی حمایت کرتا ہے لیکن اس نے بارہا امریکا کی طرف سے روس کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت کو مسترد کیا ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے 2024 کے اندازوں کے مطابق امریکا کے پاس 3 ہزار 708 ایٹمی وار ہیڈز ہیں اور روس کے پاس 4 ہزار 380 (ریٹائرڈ وار ہیڈز کے علاوہ)، جب کہ چین کے پاس 500 ہیں جو 2023 کے مقابلے میں 90 زیادہ ہیں، ان کے بعد فرانس (290) اور برطانیہ (225) ہیں۔
بیجنگ نے بدھ کو کہا کہ وہ اپنی ایٹمی قوت کو قومی سلامتی کے لیے درکار کم سے کم سطح پر برقرار رکھتا ہے اور کسی ملک کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں۔
