sui northern 1

روڈ یا عذاب

0
Social Wallet protection 2

تحریر: یاسر کریم

sui northern 2

نوے کی دہائی میں راولپنڈی سے گلگت جاتے ہوئے یا گلگت سے چترال کا سفر کرنے والے آپ میں سے بہت سے احباب نے راستے میں جگہ جگہ یہ تحریر ضروردیکھا ہوگا۔

پچھلے چند سالوں سے یہ الفاظ ہمارے ذہنوں سے نکل چکے تھے جب سے وفاقی حکومت نے گلگت چترال ایکسپریس وے جس کی لاگت اربوں میں ہے اور یہ پاکستان کے مہنگے،بڑے اور اہم پراجیکٹس میں سے ایک ہے کیونکہ اس ایکسپریس وے کو سی پیک کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جائے گا ضلع غذر گلگت بلتستان کا سب سے خوبصورت ضلع ہے اسے دیکھنے دنیا بھر سے سیاح بھی یہاں کا رخ کرینگے جس سے ملک کی معیشت مظبوط ہوگی .

عوام جی بی اور بلخصوص غذرسے چترال تک بسنے والے لاکھوں لوگوں کی اس پروجیکٹ کے اعلان کے بعد خوشی دیدنی تھی لیکن جوں جوں اس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا تو عوام میں مایوسی بڑھتی گئی قوم کے ٹیکس سے بننے والا اربوں روپے کا یہ پروجیکٹ اونچی دوکان پھیکا پکوان کے مانند ثابت ہوا آہستہ آہستہ اس کی حقیقت عوام کے سامنے انا شروع ہوگئی اور عوام کے ذہنوں میں نوے کی دہائی کا نعرہ روڈ یا عذاب دوبارہ چھاگیا اب حالت یہ ہے اتنے بڑے پروجیکٹ کو چند ایکسویٹر اور ڈمپروں کے رحم وکرم چھوڑ دیاگیا ہے جو دنوں کا کام مہنیوں میں کرتے ہیں اور ہر وقت روڈ بلاک کر کے عوام کو تکلیف دینے کے علاؤہ کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے کام کا معیار دیکھ کر ہر بندہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے لیکن افسوس یہاں پر روز سفر کرنے والے اسمبلی ممبران ہو یا حکومتی ذمہ داران ٹس سے مس نہیں ہے.

این ایچ اے کے صاحبان بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر چکے ہیں کوئی ایک ذمہ دار بھی اس اہم پروجیکٹ کو اپنے دفتر میں رکھے ڈسٹ بین کے برابر بھی اہمیت دیتا نظر نہیں آرہا ہے، پہاڑ کی کٹائی ہو یا روڈ کی چوڑائی ہر جگہ مایوسی نظر آتی ہے کام کا معیار ہو یا رفتار کچھ بھی صحیح نہیں ہورہا ہے خدا خدا کر کے تارکول ڈالنا شروع کیا تو دو موڑ تارکول ڈالنے کے بعد اکلوتی مشین کا موڈ خراب ہوا اور کھڑی ہوگئی جولائی کے مہینے میں یہاں تارکول ڈالنے کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس موسم میں تارکول کی گرفت مضبوط ہوتی ہے اب جہاں تارکول بنایا جاتا ہے اور جس جگہ ڈالا جاتا ہے درمیان میں تیس کلو میٹر کا فاصلہ ہے یہ فاصلہ طے کرنے میں گھنٹے سے زیادہ وقت لگتا ہے.

تارکول ٹریک میں ڈالنے کے ایک گھنٹے بعد روڈ پر ڈال دیا جاتا ہے اب ایک گھنٹے کے بعد تارکول کی وہ گرفت ہو ہی نہیں سکتی جو اصل معیار کے مطابق ہونی چاہے افسوس تو تب ہوتا ہے جب ہر بندے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ضلع غذر کی ترقی کا دارومدار اس پروجیکٹ سے ہے اسکے باجود یہاں کے سیاسی نمائندے ہوں کمیٹیاں ہوں یا جرگے سب خاموش ہے ان کا زور پانی کی ٹوٹی سے شروع ہوکر چرواہے کی بکری پر ختم ہوتا ہیں، ملک میں ایسے پروجیکٹس کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتا ہے اسے دیکھتے ہوئے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے میں وزیر اعظم پاکستان وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان چیئرمین این ایچ اے چیف سیکریٹری فورس کمانڈر سب سے ایک دفعہ پھر گزارش کروں گا خدارا اس اہم منصوبے پر توجہ دیں ورنہ یہ پروجیکٹ تو خراب ہوگا ہی عوام کے ذہنوں میں ایک اور بدترین مثال کا اضافہ ہوگا جہاں عوام کے ٹیکس کے اربوں روپے برباد کر دیےجائیں گے۔

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.