لاہور میں پنجاب کابینہ نے موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 میں 20 ترامیم کی منظوری دے دی، جنہیں اب توثیق کے لیے پنجاب اسمبلی کو بھجوا دیا گیا ہے۔
منظور شدہ ترامیم کے مطابق ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر جرمانوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔ موجودہ چالان کی شرح جو 200 سے ایک ہزار روپے تک تھی، اب دو ہزار سے 20 ہزار روپے تک کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم پر جے یو آئی سے رابطہ کرلیا
نئی تجاویز کے تحت اوور اسپیدنگ پر موٹرسائیکل کو 2 ہزار، 2000 سی سی تک کی کار کو 5 ہزار، 2000 سی سی سے زائد گاڑی کو 20 ہزار اور کمرشل یا پبلک وہیکل کو 15 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا۔
سگنل توڑنے پر 2 ہزار سے 15 ہزار، لائن یا زیبرا کراسنگ کی خلاف ورزی پر 10 ہزار، ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال کرنے پر 2 سے 15 ہزار روپے جرمانہ عائد ہوگا، جبکہ کم عمر ڈرائیور کو گاڑی یا موٹر سائیکل دینے والے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ترمیمی مسودے میں کار کے ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر سیٹ بیلٹ باندھنا لازمی قرار دیا گیا ہے، جبکہ گاڑیوں کے ڈیزائن میں غیر قانونی تبدیلی کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
مزید یہ کہ ڈیجیٹل چالان اور کمپیوٹرائزڈ ڈرائیونگ لائسنس کو قانونی حیثیت دینے کی سفارش کی گئی ہے، اور موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھنے والے کے لیے بھی ہیلمٹ پہننا لازمی ہوگا۔
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے لیے پوائنٹ بیسڈ سسٹم بھی متعارف کرایا جا رہا ہے۔ مختلف خلاف ورزیوں پر 2 سے 4 پوائنٹس کاٹے جائیں گے، اور اگر کسی ڈرائیور کے 20 پوائنٹس کٹ گئے تو اس کا لائسنس 6 ماہ سے ایک سال تک معطل کیا جا سکے گا۔