اسلام آباد(نیوز ڈیسک) فوج کی جانب سے 9 مئی کے پرتشدد واقعات میں سابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے مبینہ کردار کی تحقیقات کے اعلان کو کئی ماہ گزر چکے ہیں، تاہم تاحال ان کے خلاف اس معاملے میں کوئی باضابطہ الزام سامنے نہیں آیا۔

ایک سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس معاملے میں فی الحال کچھ نیا سامنے نہیں آیا، لیکن جیسے ہی کچھ پیش رفت ہوئی، تو اسے ضرور شیئر کیا جائے گا۔
گزشتہ برس آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ جنرل فیض پر سیاسی سرگرمیوں میں شرکت، آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کے غلط استعمال اور ریاست کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات کے تحت کارروائی جاری ہے۔ اگرچہ بعض وفاقی وزراء نے انہیں 9 مئی کے فسادات سے جوڑنے کی کوشش کی، مگر اس حوالے سے اب تک کوئی قانونی کارروائی یا فردِ جرم سامنے نہیں آئی۔
جنرل فیض کے وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا ہے کہ اب تک جو بھی ریکارڈ یا شواہد دستیاب ہیں، ان میں ان کے مؤکل کا کردار ثابت نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق اگر کوئی الزام ہوتا بھی، تو اس کا اظہار فردِ جرم کی صورت میں ہوتا، جو فی الحال موجود نہیں ہے۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آچکا ہے کہ جنرل فیض کا مبینہ کردار 9 مئی کے واقعات میں "سیاسی مفادات” کے زاویے سے الگ تحقیقات کے تحت ہے، لیکن ان تحقیقات کی تفصیلات تاحال منظرِ عام پر نہیں آئیں۔
رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنرل فیض کے سیاستدانوں، خاص طور پر تحریک انصاف کے رہنماؤں سے قریبی روابط رہے، جن کے بارے میں انہوں نے وضاحت کی کہ وہ ملاقاتیں زیادہ تر سماجی نوعیت کی تھیں یا ذاتی درخواستوں پر مشتمل تھیں، جیسے ملازمت یا پارٹی ٹکٹ کے حوالے سے سفارشات۔
فوج کی طرف سے لگائے گئے ابتدائی الزامات میں ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچانا، اختیارات کا غلط استعمال اور اہم سرکاری معلومات افشا کرنا جیسے سنگین نکات شامل تھے۔ تاہم، دوسری طرف وفاقی وزراء کی جانب سے ان کے اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے مبینہ تعلقات پر مسلسل سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، لیکن اب تک ان دعوؤں کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد عوام کے سامنے نہیں لائے گئے۔
اس کے برعکس، پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں، اور کئی افراد کو سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں، مگر جنرل فیض کے خلاف فردِ جرم نہ ہونے کی وجہ سے ان پر لگنے والے الزامات غیر واضح اور غیر حتمی محسوس ہوتے ہیں۔
