(نیوز ڈیسک)پاکستان کی سیاست میں مسلسل تغیر پذیر منظرنامے کے باوجود، صدر آصف علی زرداری ایک ایسی مدبر شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں جنہوں نے نہ صرف جمہوریت کو استحکام بخشا بلکہ صوبائی خودمختاری اور قومی مفاہمت کو عملی صورت دی۔

ان کی 2024 میں ایوان صدر میں واپسی محض ایک سیاسی عمل نہیں بلکہ جمہوری اقدار، آئینی بالادستی اور وفاقی نظم سے ان کی دیرینہ وابستگی کا مظہر ہے
زرداری صاحب کا سیاسی سفر آرام دہ راہوں کا عکاس نہیں بلکہ قربانی، صبر اور استقامت کی ایک طویل داستان ہے۔ انہوں نے 11 برس سے زائد جیل میں بغیر سزا کاٹی، لیکن نفرت کو دل میں جگہ نہ دی۔ انہوں نے ہمیشہ برداشت، مفاہمت اور آئینی اداروں کی حرمت کو اپنی سیاست کا محور بنایا۔
2007 میں جب محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت سے پورا ملک سوگوار تھا، آصف زرداری نے نہ صرف پیپلز پارٹی کو سنبھالا بلکہ قومی وحدت کی علامت بنے۔ ان کے الفاظ ’’پاکستان کھپے‘‘ ایک جذباتی لمحے میں ریاست کی یکجہتی کا استعارہ بن گئے۔
یہی وہ سوچ تھی جو محترمہ بینظیر بھٹو نے مفاہمت کی سیاست کی صورت میں پروان چڑھائی، جس کا عملی اظہار 2006 میں میثاقِ جمہوریت کے ذریعے نواز شریف کے ساتھ کیا گیا۔ صدر زرداری نے 2008 میں جب منصبِ صدارت سنبھالا تو اسی وژن کو حقیقت میں ڈھالا۔
ان کے دور میں اٹھارہویں آئینی ترمیم محض ایک قانون سازی نہیں بلکہ ایک انقلابی قدم تھا، جس نے پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کو اصل روح کے مطابق بحال کیا۔ انہوں نے اختیارات کو پارلیمان کے سپرد کیا، اور آمریت کے دور کے غیر جمہوری نقوش کو مٹایا۔
اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو پہلی بار مالی، قانونی اور ترقیاتی سطح پر خودمختاری ملی، جس سے وفاق کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ یہ محض آئینی تقاضا نہیں تھا بلکہ عملی طور پر ایک مضبوط اور متوازن وفاق کی بنیاد رکھی گئی۔
زرداری صاحب کا وژن صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشی میدان میں بھی دوررس ثابت ہوا۔ انہوں نے زرعی شعبے کو اہمیت دی، کسانوں کو بروقت بیج، کھاد اور قرضے فراہم کیے، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں زرعی پیداوار میں تاریخی اضافہ ہوا۔ پاکستان گندم درآمد کرنے والے ملک سے برآمد کنندہ بن گیا، جو کسانوں کے اعتماد کی بحالی اور غذائی خودکفالت کی سمت ایک سنگ میل تھا۔
2010 اور 2011 کے تباہ کن سیلابوں کے دوران ان کی قیادت نے بحران کے لمحات میں قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی عملی مثال قائم کی۔ انہوں نے ریلیف سرگرمیوں کی ذاتی طور پر نگرانی کی، اور تمام اداروں کو منظم انداز میں متحرک رکھا۔
اسی دور میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز ہوا، جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی منصوبہ تھا۔ اس کے ذریعے لاکھوں خواتین کو مالی خودمختاری، شناختی کارڈ اور بینک اکاؤنٹس فراہم کیے گئے، جس سے نہ صرف غربت میں کمی آئی بلکہ معاشرتی ڈھانچے میں خواتین کی حیثیت کو نئی پہچان ملی۔
زرداری صاحب کی سیاست کی بنیاد ہمیشہ برداشت، مکالمہ اور جمہوری تسلسل رہی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اختلاف کو دشمنی کے بجائے گفت و شنید کا دروازہ سمجھا۔ ان کے دور میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے اپنی مدت مکمل کر کے اقتدار پرامن طور پر اگلی منتخب حکومت کو منتقل کیا، جو ان کے جمہوریت پر یقین کی زندہ مثال ہے۔
آج، 2025 میں، جب وہ ایک بار پھر ایوانِ صدر میں موجود ہیں، تو ان کا نصب العین وہی ہے — مضبوط وفاق، خودمختار صوبے، پسماندہ طبقات کی فلاح، اور آئین کی مکمل بالادستی۔
