تلخیص، ترجمہ و تالیف: مصطفی صفدر بیگ

صبح 4 بجے، ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا — لیکن میدانِ جنگ پر نہیں، بلکہ سفارتی پردوں کے پیچھے۔
مبینہ طور پر چین کے سفیر نے "راولپنڈی” کو فوری فون کال کی اور ایک طویل عرصے سے تیار کیا گیا کانٹینجنسی پلان چند ہی گھنٹوں میں حرکت میں آ گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ محض فضائی جھڑپ نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسا انکشاف تھا جس نے ہندوستان کی فضائی بالادستی کے افسانے کو تار تار کرکے رکھ دیا تھا۔
۔۔۔۔۔
بھارتی فضائیہ کئی دنوں سے مغربی محاذ پر تقریباً 180 جنگی طیارے جمع کیے ہوئے تھی۔ مقصد واضح تھا کہ
بالاکوٹ دہراؤ
پاکستانی دفاع کو توڑو
اور اپنی اسٹریٹجیک بالادستی کا تشخص بحال کرو۔
لیکن آسمان اب وہ نہیں رہا تھا۔
وہ (بھارتی طیارے) 300 کلومیٹر دور کیوں رکے؟
اس دوران بھارتی فضائیہ نے کبھی سرحد پار نہیں کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سرحد کے پار کیا انتظار کر رہا ہے؟
یعنی
اول: چینی J-10C لڑاکا طیارے، خاموش اور مہلک
دوم: PL-15 میزائل، جو ماخ 5 کی رفتار اور 300 کلومیٹر سے زائد رینج کے ساتھ شکار کرتے ہیں
اور
سوم: Erieye ریڈارز، جو ہر شوٹر کو ایک جان لیوا نیٹ ورک سے جوڑ دیتے ہیں
۔۔۔۔۔
بھارت نے اپنے مقابل صرف پاکستانی پائلٹس ہی نہیں دیکھے بلکہ چین کی پوری فضائی جنگ کی ڈاکٹرائن بھی اس کے سامنے تھی جو سکردو سے پسنی تک پھیلی ہوئی تھی۔
اور رافال؟ انہیں کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔
ایک 25 کروڑ ڈالر کے رافال کو ہوا میں ہی مار گرایا گیا۔
دوسرا بمشکل واپس بھاگ سکا۔
رافال کا اسپیکٹرا ای ڈبلیو سسٹم جو اس کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا، وہ بھی بے بس ہوگیا۔
PL-15 ریڈار سے نہیں بلکہ AI-گائیڈڈ خاموشی سے آیا۔
بھارتی فضائیہ جسے ڈاگ فائٹ سمجھ رہی تھی، یہ ڈاگ فائیٹ نہیں تھی بلکہ یہ ایک گھات تھی۔
پاک فضائیہ نے چینی سیٹلائٹس اور AWACS کی مدد سے ایک "سینسر فیوژن کل” کو عملی جامہ پہنایا ۔۔۔۔۔ رافالز کو کبھی ٹارگٹ لاک بھی نہیں ملا ۔۔۔۔۔ انہیں اپنا دشمن دکھائی تک نہیں دیا ۔۔۔۔۔ اور جب میزائل لگے، تب تک سب ختم ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔
بھارت کو معلوم ہو گیا کہ اگر ایک رافال گرسکتا ہے تو پانچ بھی گرسکتے ہیں۔
اسی لیے ان کے طیارے زمین پر رکھے گئے تھے۔
اسی لیے وہ سرحد سے 300 کلومیٹر دور رہتے ہیں۔
ہمت کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ یقین کی کمی کی وجہ سے۔
۔۔۔۔۔
اسٹریٹجک شرمندگی
اس کے اثرات بڑے زبردست ہیں۔ ہندوستان کا فخر، رافال، ایک پاکستانی جہاز سے چلائے گئے چینی میزائل سے گرگیا۔ یہ محض ایک ٹیکٹیکل ناکامی نہیں بلکہ یہ ایک جیوپولیٹیکل پیغام ہے۔
یہاں تک کہ بلومبرگ نے بھی لکھا کہ یہ "چین-پاکستان انٹیگریٹڈ وارفیئر کا براہِ راست مظاہرہ تھا۔
مغربی تجزیہ کار حیران ہیں۔ فرانسیسی دفاعی معاہدے ہل کر رہ گئے ہیں۔
اور چین؟ وہ خاموشی سے دیکھ رہا ہے اور مسکرا رہا ہے۔
اب کھیل بدل گیا ہے
یہ 2019 نہیں۔ یہ بالاکوٹ نہیں۔
بھارت اب جانتا ہے کہ پاکستانی فضائی حدود میں داخلہ، J-10C، PL-15 اور پاکستانی عزم کے ہاتھوں ایک موت کے جال میں پھنس جانے کے مترادف ہے۔
اس لیے وہ پیچھے رہتے ہیں۔
خوف سے زمین بست
ریڈار سے اوجھل
اور خاموشی سے رسوا
۔۔۔۔۔
"بھارتی پائلٹ ہنر کی کمی سے نہیں ہارا۔ وہ ایک ایسے میدانِ جنگ میں ہارا جسے وہ دیکھ ہی نہیں سکتا تھا، جو سیٹلائٹس نے بنایا، سینسرز نے جوڑا اور مشینوں نے انجام دیا۔”
۔۔۔۔۔
مئی 2025 میں، کھیل بدل گیا۔
بھارت کا فضائی بالادستی کا دیرینہ خواب جو 36 رافال جہازوں، Spectra EW سسٹم اور فرانسیسی انجینئرنگ پر مبنی تھا، اس ہفتے کشمیر کے آسمان پر خاک میں مل گیا۔
۔۔۔۔۔
یہ ڈاگ فائٹ نہیں تھی۔
یہ ایک منصفانہ جنگ بھی نہیں تھی۔
یہ ایک ڈاکٹرائن کی شکست تھی جسے پوری دنیا کے فوجی اسٹریٹجسٹس نے براہِ راست دیکھا۔
۔۔۔۔۔
مہلک کل چین
چین خاموشی سے میدان میں اترا لیکن جس طرح زیادہ تر مغربی تجزیہ کاروں نے سوچا تھا، اس طرح نہیں۔
نہ J-20 تھے، نہ جنگ کے اعلانات
بس ایک باکس تھا اور ایک نیٹ ورک تھا۔
۔۔۔۔۔
مشاہدے اور عمل کی ایک خاموش زنجیر
Saab Erieye AWACS خاموشی سے گشت کر رہے تھے
J-10C طیارے پیسیو موڈ میں اڑ رہے تھے
PL-15E میزائلز (جو 300 کلومیٹر رینج اور ماخ 5 کی رفتار رکھتے ہیں) لانچ ہوئے
رافال کو پتہ بھی نہیں چلا کہ وہ نشانہ بنا ہے جب تک میزائل 50 کلومیٹر دور نہیں آگیا۔
اس رفتار پر ہندوستانی پائلٹ کے پاس صرف 9 سیکنڈ تھے
ردعمل کے لیے ناکافی
زندہ بچنے کے لیے ناکافی
۔۔۔۔۔
ہندوستانی فضائیہ زمین پر کیوں ہے؟
اب آپ کشمیر کے اوپر بھارتی فضائیہ نہیں دیکھتے۔
کیوں؟
کیونکہ ہر طیارہ اٹھتے ہی پاکستانی ریڈارز اسے بھانپ لیتے ہیں۔
کیونکہ پاکستانی ریڈار Erieye وہ دیکھتا ہے جو ہندوستانی ریڈار نہیں دیکھ سکتے۔
کیونکہ PL-15 رافال کے خطرے کے دائرے سے باہر سے فائر ہوتا ہے۔
کیونکہ رافال، جو کبھی ہندوستان کا "سلور بلیٹ” تھا، اب ایک 25 کروڑ ڈالر کا "اوندھے منہ پڑا بطخ” بن چکا ہے۔
اب بھارتی فضائیہ اپنی سرحدوں سے 300 کلومیٹر پیچھے اڑتی ہے۔
اور
بالاکوٹ 2.0؟
یہ اب نہیں ہوگا، شاید کبھی نہیں۔
کم از کم اس آسمان پر تو نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔
ڈاکٹرائن کی شکست
دنیا اس کے اثرات دیکھ رہی ہے۔
Dassault Aviation کے شیئرز کی قیمت جامد ہے۔
چینی دفاعی اسٹاکس AVIC, ALD Chengdu اوپر جا رہے ہیں۔
کیونکہ جنگ کا فیصلہ ڈاگ فائٹ میں نہیں ہوا۔
بلکہ C4ISR (کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشن، کمپیوٹرز، انٹیلیجنس، سرویلنس، ریکونے سانس) کی بالادستی سے ہوا۔
پاکستان نے بھارت کو ہتھیاروں سے نہیں بلکہ نیٹ ورک سے شکست دی۔
اور بھارت حیرت زدہ ہوکر اپنے طیارے زمین پر روک بیٹھا ہے۔
۔۔۔۔۔
بھارت کا درد اور پاکستان کا پیغام
بھارت نے پلیٹ فارمز میں سرمایہ کاری کی اور پاکستان نے کل چینز میں۔
مودی کا نظریہ تھا کہ ہتھیاروں پر پیسہ خرچ کرکے "بالادستی خریدو۔”
لیکن حقیقت نے ثابت کیا کہ "بالادستی خود قائم کرنا پڑتی ہے۔”
کیونکہ
کوئی Spectra سسٹم اس میزائل کو نہیں روک سکتا جسے وہ ڈیٹیکٹ ہی نہیں کرتا۔
کوئی EW سوٹ سیٹلائٹ ڈیٹا سے چلنے والے میزائل کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔
کوئی لڑاکا طیارہ اس موت سے نہیں بچ سکتا جسے وہ آتے ہوئے دیکھتا ہی نہیں۔
اب
آسمان بدل چکا ہے۔
لیکن یہ فضائی جنگ کا اختتام نہیں ہے۔
بلکہ یہ خاموش، نظر نہ آنے والی اور لاجواب فضائی بالادستی کا آغاز ہے۔
