سپریم کورٹ آج اسلام آباد میں فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے سے متعلق اپنے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت جاری ہے جب کہ وفاقی حکومت نے تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔
آج کی سماعت شروع ہونے سے قبل فیض آباد دھرنا کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی جب کہ وفاقی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دے دیا۔
تشکیل کردہ کمیشن میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، 2 ریٹائرڈ سابق آئی جیز طاہر عالم خان اور اختر شاہ شامل ہیں۔
انکوائری کمیشن کے تفصیلی ٹی او آرز کی بھی کابینہ نے منظوری دی، وفاقی کابینہ کی منظوری سے جاری نوٹیفکیشن اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں پیش کریں گے۔
نجی خبررساں ادارے کو موصول نوٹیفکیشن کے ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو فیض آباد دھرنا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے لیے ٹی ایل پی کو فراہم کی گئی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کی انکوائری کا کام سونپا گیا ہے۔
چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھانے سے برسوں قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کردہ اس سنگین فیصلے میں وزارت دفاع اور تینوں افواج کے سربراہوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے زیر قیادت ان اہلکاروں کو سزا دیں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے۔
انہوں نے وفاقی حکومت کو نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کرنے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
20 روزہ جاری رہنے والے دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں میں زندگی مفلوج کر کے کر عوام کو تکلیف پہنچانے پر متعدد سرکاری محکموں کے خلاف بھی منفی مشاہدات کیے گئے تھے۔
بعد ازاں وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو، پی ٹی آئی، پیمرا، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید اور اعجاز الحق کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئیں۔
تاہم، زیادہ تر درخواست گزاروں نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں جس پر چیف جسٹس نے سوال پوچھا کہ ہر کوئی سچ بولنے سے اتنا ڈرتا کیوں ہے؟
گزشتہ سماعت کے دوران پیمرا کے سابق سربراہ ابصار عالم نے فیض آباد دھرنے کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت اور میڈیا پر جبر کے انکشافات کیے تھے۔
اس ہفتے کے آغاز میں درخواستوں پر جاری کردہ ایک حکم میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ حکومت سے توقع کرتی ہے کہ وہ دھرنے کے بارے میں فیکٹ فائنڈنگ تحقیقات کو مقررہ وقت کے اندر حتمی شکل دے گی، انہوں نے ای سی پی کو تھریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور اس کی فنڈنگ سے متعلق رپورٹ تیار کرنے اور جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت بھی دی تھی۔
مزید برآں، عدالتی حکم نے اٹارنی جنرل (اے جی) کے اعتراض کو دوبارہ پیش کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے وزارت دفاع کی جانب سے سول نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی اور ایک درخواست انٹیلیجنس بیورو کی جانب سے دائر کی تھی ، وفاقی حکومت دونوں کو واپس لینا چاہتی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں اور وہ چار سال آٹھ ماہ سے زیر التوا ہیں،وفاقی حکومت سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ فضول درخواستیں دائر کرے گی اور عدالت کے عمل کا غلط استعمال کرے گی۔
آج کی سماعت سے قبل، اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) منصور عثمان اعوان نے کہا کہ حکومت حقائق تلاش کرنے والے پینل کے بارے میں ایک نیا نوٹیفکیشن عدالت میں جمع کرائے گی۔
درخواستیں
آئی بی کی نظرثانی کی درخواست میں عدالت سے محکمے کے خلاف کیے گئے منفی مشاہدات کو ایک طرف رکھنے کی استدعا کی گئی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک اعلیٰ سول انٹیلی جنس ایجنسی ہے جو ریاست کی سلامتی کی ذمہ دار ہے۔
اس درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ غیر قانونی حکم نامے نے عوام میں ایک خراب تاثر پیدا کیا ہے کہ آئی بی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے غیر قانونی سرگرمیوں اور سیاست میں ملوث ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ فیصلے میں دیے گئے مشاہدات مبہم حقائق پر مبنی تھے اور یہ کہ دھرنے کے دوران محکمہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے ساتھ قریبی رابطے میں تھا اور انہیں ٹی ایل پی کے منصوبوں اور ارادوں کے بارے میں پیشگی سے آگاہ کیا تھا،اس خیال کے ساتھ کہ اسلام آباد میں طوفان/لاک ڈاؤن کی ان کی کوشش کو ناکام بنایا جائے۔
دریں اثنا، جواب میں وزارت دفاع نے عدالت سے مسلح افواج یا انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بارے میں واضح یا غیر واضح مشاہدات کو ایک طرف رکھنے کی درخواست کی تھی۔
وزارت کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ بہت سے عوامل حوصلے کو متاثر کر سکتے ہیں ،تاہم ن کا کہنا تھا کہ اس عہدے اور فائل کے درمیان یہ یقین سب سے زیادہ نقصان دہ تھا کہ ان کے افسران خود ساختہ نجات دہندہ کی طرح کام کرتے ہوئے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور پاکستان اور اس کے تمام شہریوں کی خدمت کرنے کے بجائے خاص سیاسی جماعت، دھڑا یا سیاست دان کی حمایت کر رہے ہیں۔
نظرثانی کی درخواست میں استدعا کی گئی کہ جب اس طرح کے ریمارکس کی سورس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہو تو یہ انتشار پسند رجحانات کو فروغ دے سکتی ہے اور اس میں مسلح افواج کی اجتماعی طور پر لڑنے کی قوت کے طور پر کام کرنے کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہے۔
اپنی درخواست میں، ای سی پی نے استدلال کیا تھا کہ اس نے 16 اگست 2017 کو ٹی ایل پی کو ایک خط جاری کرکے آئین، قانون اور ضابطہ اخلاق کا جامع طور پر اطلاق اور نفاذ کیا تھا، جس میں پارٹی سے اپنے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا گیا تھا اور یہاں تک کہ اسے نوٹس جاری کیا گیا تھا،
دریں اثنا، پی ٹی آئی نے 2014 کے اسلام آباد میں اس کے اور پاکستان عوامی تحریک کے مشترکہ دھرنے کے فیصلے میں ذکر پر سوال اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ اس سے جو تاثر ملتا ہے وہ یہ ہے کہ پارٹی نے تشہیر کے لیے غیر قانونی احتجاج کیا اور جان بوجھ کر غلط الزامات لگائے.
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پارٹی کا ٹی ایل پی کے فیض آباد دھرنے سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا ریمارکس کو خارج کیا جائے۔
شیخ راشید نے فیصلے سے اپنا نام ہٹانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا، اپنی درخواست میں، اے ایم ایل کے سربراہ نے استدعا کی کہ اگر فیصلے کے پیرا 4 میں ان کے بارے میں الفاظ کو ختم نہیں کیا گیا تو وہ اپنی زندگی میں منفی اثرات کا شکار ہوں گے۔
فیض آباد دھرنا
یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔
حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ ،پارلیمنٹ کا فیصلہ کالعدم
اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔
27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔
