جسٹس منصور علی شاہ کا ججز کمیٹی پر اعترا ض پرچیف جسٹس کا جوابی خط
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے نئی تشکیل کردہ ججز کمیٹی پر اعتراض عائد کیا تھا جس کے جواب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون کے تحت آپ اس بات پر سوال نہیں اٹھاسکتے کہ چیف جسٹس کس جج کو کمیٹی میں شامل کریں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا۔ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے لکھے گئے خط کے مندرجات سامنے نہیں آسکے، خط 4 صفحات پر مشتمل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ چیف جسٹس کے خط میں کہا گیا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو کمیٹی میں شامل ہونے کا کہا گیا لیکن انہوں نے ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کی، جسٹس یحیی آفریدی کی معذرت پر جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی میں شامل کیا گیا،جوابی خط کے مطابق قانون کے تحت آپ اس بات پرسوال نہیں اٹھاسکتےکہ چیف جسٹس کس جج کو کمیٹی میں شامل کرے، میں ہمیشہ احتساب اور شفافیت کا داعی رہا ہوں۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ نے شرکت سے انکار کردیا تھا، انہوں خط لکھ کر واضح کیا کہ وہ فل کورٹ کی جانب سے آرڈیننس کے جائزے یا سابقہ کمیٹی کی بحالی تک اجلاس میں نہیں بیٹھ سکتے۔جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں کہا تھا کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ قانون بنانے اور سپریم کورٹ اپنے رولز بنانے میں خود مختار ہے، آرڈیننس کے اجرا کے باوجود پہلے سے قائم کمیٹی کام جاری رکھ سکتی تھی۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا کہ آرڈیننس کے اجرا کے چند گھنٹوں میں وجوہات بتائے بغیر نئی کمیٹی کی تشکیل کیسے ہوئی، چیف جسٹس نے دوسرے اور تیسرے نمبر کے سینئر ترین جج کو کمیٹی کیلئے کیوں نہیں چنا۔انہوں نے خط میں سوال کیا ’چیف جسٹس نے چوتھے نمبر کے سینئر ترین جج کو ہی کمیٹی کا حصہ کیوں بنانا چاہا، کیا چیف جسٹس چوتھے نمبر کے جج کو کمیٹی کا رکن بنانے کی وجوہات بتائیں گے؟جسٹس منصور کے خط کے مطابق آرڈیننس آئین و جمہوری اقدار کے برخلاف ہے، اس سے سپریم کورٹ میں ون مین شو قائم ہوا جب کہ آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 191 اور سپریم کورٹ کے فل کورٹ فیصلہ کے خلاف ہے۔
حلفاً کہتی ہوں پنجاب میں 100 فیصد نوکریاں میرٹ پر دیں،وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا دعویٰ