ایڈیٹوریلپاکستانتازہ ترین

توشہ خانہ تحائف کیس ٹرائل کورٹ میں سماعت روکنے کیلئے چیئرمین پی ٹی آئی بہانے گھڑ رہے ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے

چیئرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کے حوالہ سے جواب دینا چاہئے، بتائیں تحائف بیچ کر رقم کہاں لگائی، چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں،

دوران سماعت مقدمات کو اعلیٰ عدالتوں میں منتقل نہیں کیا جا سکتا تاہم ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، کیسز میں تاخیر کیلئے سٹے آرڈر لئے جا رہے ہیں، آج چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے وکلاء کے پاس عدالت کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاء تارڑ نے منگل کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ کا مقدمہ حتمی مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے جس کی سماعت کل تک ملتوی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا 342 کا بیان ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 342 کے بیان پر ان کے دستخط بھی ہو چکے ہیں، اب ان کی شہادتوں کی ریکارڈنگ کی جائے گی، ہر ملزم کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں اگر کوئی شہادت یا گواہ پیش کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیس چند گواہان پر مشتمل تھا، اس کو منطقی انجام تک پہنچنے کیلئے گیارہ ماہ کا عرصہ لگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ توشہ خانہ کیس کو حتمی مرحلہ تک پہنچنے کیلئے کئی مراحل سے گزرنا پڑا، کوئی بھی ٹرائل جب تک اس کا حتمی فیصلہ نہ آ جائے اس کو اعلیٰ عدالتوں میں نہیں لے جایا جاتا اور یہ معمول کی بات ہے کہ جب ٹرائل کورٹ کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ضرور کیا جاتا ہے لیکن سماعت چل رہی ہو تو قانونی طور پر یہ روایت نہیں ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں، جب آپ نے تکنیکی بنیادوں پر معاملہ کو التواء کا شکار کرنا ہو، میرٹ پر بحث نہ کرنی ہو تو پھر اعلیٰ عدالتوں میں جایا جاتا ہے اور حیلوں بہانوں سے سٹے آرڈر حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

عطا تارڑ نے کہا کہ آج جب سماعت ہوئی تو بہت سے سوالات کا نہ تو ملزم کے پاس جواب تھا اور نہ ان کے وکلاء کے پاس کوئی جواب تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج سماعت کے موقع پر جب چیئرمین پی ٹی آئی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے توشہ خانہ کے تحائف لئے تھے؟ تو جواب دیا کہ ہاں میں نے تحائف لئے تھے لیکن اپنے ایک افسر کو دے دیئے۔ پوچھا گیا کہ کیا آپ نے وہ تحائف بیچے تھے؟ تو جواب دیا گیا کہ جی بیچے تھے مگر فلاں آدمی نے بیچے تھے۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا تحائف بیچنے کے بعد جو رقوم حاصل ہوئی تھیں وہ آپ کے اکاؤنٹ میں آئی تھیں؟ تو چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ ہاں وہ رقوم میرے اکاؤنٹ میں آئی تھیں لیکن میرے اکاؤنٹنٹ کو پتہ ہے مجھے نہیں پتہ۔ عطا تارڑ نے کہا کہ جب تحفے لئے گئے تو ڈیکلیئر نہیں کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ اگر گھر میں کوئی چیز آئے تو سب کو پتہ ہوتا ہے کیا آیا ہے، آج چیئرمین پی ٹی آئی سے سوال کئے جاتے ہیں تو جواب دینے کی بجائے دوسروں پر ڈالتے ہیں کہ مجھے نہیں پتہ۔ معاون خصوصی نے کہا کہ آج مجھے بہت افسوس ہوا ہے کہ آپ روز قوم کو جھنڈے لگا کر دو دو گھنٹے اخلاقیات، خود کو مسلم امہ کا لیڈر ظاہر کرنے کے لیکچر دیتے ہیں، بتاتے ہیں کہ چوری، چور اور ڈاکو کیا ہوتا ہے؟عطا تارڑ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بتائیں توشہ خانہ کے کتنے تحائف لئے تھے؟ کتنی رقم وصول کی؟ کہاں بیچے؟ حاصل رقم سے کیا کیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ان کے وکیل علی ظفر الیکشن کمیشن میں مقدمہ کی سماعت کے دوران بینک الفلاح کے اکاؤنٹس کو تسلیم کر چکے ہیں،

آپ پر تحائف لینے اور ڈیکلیئر نہ کرنے کا کیس ہے، تحفے ڈیکلیئر نہیں کئے اور ان کی فروخت سے حاصل رقوم بینک میں جمع کرائیں اور وہ رقوم اس رقم سے مطابقت نہیں رکھتی جو بینک میں جمع کرائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ تحفے بیچنے کے بعد رقم کہاں گئی، اس کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی ضروری امر ہے کہ معلوم کیا جائے کہ یہ رقم کہاں خرچ کی گئی، چیئرمین پی ٹی آئی دوسروں کو رسیدیں نکالنے کا کہتے تھے اور آج خود جعلی رسیدیں بنانے پر مجبور ہیں، عدالت میں اپنے دفاع میں کوئی بات نہیں کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس کے اوپر مہم چلائی گئی، نواز شریف نے اپنی بیٹی کے ہمراہ کئی سو پیشیاں بھگتیں، چیئرمین پی ٹی آئی بتائیں کتنی پیشیاں بھگتیں؟ روز کوئی نہ کوئی بہانہ بناتے ہیں، یہ افسوسناک ہے بہانے بازی کی جا رہی ہے، چوری ثابت ہو چکی ہے اور روز ایک نہ ایک بہانہ، کل سپریم کورٹ میں جو کیس دائر کیا گیا ہے یہ بھی ملک کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اتنے شہری اپنے کیسوں کی سماعت کیلئے آتے ہیں، ان میں کتنوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ان کے وکلاء کورٹ روم 1 میں چیف جسٹس سے استدعا کریں کہ ٹرائل کے چلتے ہوئے ان کا کیس سپریم کورٹ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کتنے ایسے سائل ہیں جن کا کیس سپریم کورٹ دو مرتبہ سنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا کیس ٹرائل کورٹ میں چل رہا ہے، اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں 7 درخواستیں دے چکے ہیں، سپریم کورٹ میں مقدمہ روکنے کی استدعا کی جو مسترد ہوئی پھر ہائی کورٹ گئے، درخواست کی کہ ٹرائل روکا جائے جو مسترد ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے کہا کہ ٹرائل میں مداخلت نہیں کی جا سکتی اور معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھیجا، اب پھر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے،

کیا یہ قانون کے مطابق جائز ہے؟ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی واحد ملزم ہے جو صبح درخواست دیتا ہے تو شام کو نمبر الاٹ ہو جاتا ہے اور شام کو درخواست دیتا ہے تو صبح نمبر الاٹ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درخواستیں سماعت کیلئے مقرر بھی کر دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے عبوری آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عبوری آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا قانون ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے کیسز میں نگران جج مقرر کئے گئے جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی کو ریلیف دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی ٹرائل کورٹ کا فیصلہ نہیں آیا لیکن اعلیٰ عدالتوں میں جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج سماعت میں ایسے لگ رہا تھا کہ جیسا کوئی سات، آٹھ سال کا بچہ سوالوں کے جواب دے رہا ہے، ہر سوال پر کہ مجھے کچھ نہیں پتہ۔ انہوں نے کہا کہ شکر ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ نہیں کہہ دیا کہ مجھے پتہ ہی نہیں کہ توشہ خانہ اور تحائف کیا ہوتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی ساری عمر لوگوں سے تحفے لیتے آئے ہیں اس لئے اپنا حق سمجھتا ہے کہ تحفے بیچ کر رقم ذاتی استعمال میں لے آئیں، اس کیس کو منطقی انجام کو پہنچنا ہے۔

 

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button