اسلام آباد(نیوزڈیسک)چیف جسٹس نیکہاکہ عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے، عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوگا تو میں اور سارے ساتھی کھڑے ہونگے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نیازخودنوٹس کیس پرسماعت کی ۔ جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحیی خان آفریدی،جسٹس جمال خان مندخیل بینچ میں شامل، جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس نعیم اختر افغان بھی لارجربیچ میں شامل ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق خط لکھا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نیکہاکہ سماعت کا آغاز کیسے کریں،پہلیپریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں۔
حامدعلی خان ایڈووکٹ نیکہاکہ ہم نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دار کر رکھی ہے۔
چیف جسٹس نیکہاکہ ابھی تو اس کیس کی سماعت کا آغاز ہوا ہے آپ کی درخواست بھی لگ جائے گی، عدالتوں کو مچھلی منڈی نہ بنائیں،اب وہ زمانے گئیکہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی ہے، ہم نے کیسز فکس کرنے کیلئیکمیٹی تشکیل دی ہے۔نہ کمیٹی کو عدالت کا اختیار اور نہ ہی عدالت کو کمیٹی کا اختیار استعمال کرنا چاہیے۔
آپ نے کوئی درخواست دائر کی ہے تو کمیٹی کو بتائیں، چیف جسٹس کا وکیل حامد خان سے مکالمہ
چیف جسٹس نیریمارکس دئییکہ آپکی درخواست کا فیصلہ کمیٹی کرے گی، ہم دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں،خود پر بھی انگلی اٹھانی چاہیے،اب وہ زمانہ چلا گیا جب چیمبر میں ملاقات کرکے کیس فکس کرایا جائے،ایک آئینی درخواست جب دائر ہوتی ہے تو اخباروں میں چھپ جاتی ہے، کیا یہ بھی ایک طرح کا پریشر ڈالنے کے مترادف ہے، میں تو کوئی دبا نہیں لیتا، ہمیں اپنے فیصلوں میں دبا نہیں لینا چاہیے، عجیب بات ہے کہ وکلا مطالبہ کرتے ہیں کہ ازخود نوٹس لیں۔
چیف جسٹس نیکہا ایک بات واضح کرتا چلوں کی عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے، چار سال تک سپریم کورٹ میں فل کورٹ نہیں ہوئی،اس وقت ساری بارز اور وکلا کہاں پر تھے،وکلا کہتے ہیں سوموٹو لے لو ، پھر وکلا کو وکالت چھوڑ دینی چاہیے، میں آپ کو وکلا کے نمائندے کے طور پر نہیں لے سکتا،وکلا کے نمائندے کے طور پر بار کے صدر موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کے وکیل احمد حسین کو بھی بولنے سے روک دیا۔
چیف جسٹس کی اٹارنی جنرل کو فل کورٹ کے بعد جاری پریس ریلیز پڑھنے کی ہدایت
چیف جسٹس نیکہا ہم شاید پروپیگنڈا میں گوئبلز کے زمانے کو واپس لا رہے ہیں، جس دن خط آیا اسی دن ہائیکورٹ ججز سے ملاقات ہوئی، اس سے زیادہ چستی سے شاید کسی نے کام کیا ہو،ہم اس معاملے کو اہمیت نہ دیتے تو کیا یہ میٹنگ رمضان کے بعد نہیں ہو سکتی تھی،26 تاریخ کو ہمیں ہائی کورٹ کے ججز کا خط ملا، اسی روز ہی افطاری کے فوری بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سمیت تمام ججز سے ڈھائی گھنٹے ملاقات ہوئی، اگر ہم اس بات کو اہمیت نہ دیتے تو فوری چیف جسٹس ہاوس میں فل کورٹ اجلاس نہ بلاتے، ہم گوئبلز کے زمانے کو واپس لا رہے ہیں،ہمیں اپنا کام تو کرنے دیں عدلیہ کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا،وزیراعظم سے ملاقات انتظامی نوعیت کی تھی،آفیشل انتظامی میٹنگ کا درجہ دینا چاہتے تھے،وزیراعظم سے ملاقات جوڈیشل نوعیت کی نہ تھی، اٹارنی جنرل صاحب آپ سے رجوع کیا تو آپ نے اچھا کردار ادا کیا۔
اٹارنی جنرل نیدلائل میں انکشساف کیاکہ چیف جسٹس نے وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا، جب میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ چیف جسٹس آپ سے ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ پہلی فرصت میں ملاقات طے کی جائے۔
چیف جسٹس نیکہاکہ یہ بھی بتا دیں کہ جو انکوائری کمیشن کے لیے نام ہم نے تجویز کیے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی بلکل جسٹس(ر)تصدق جیلانی سمیت دیگر نام عدلیہ کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے، کابینہ کی میٹنگ کے بعد جسٹس(ر)تصدق جیلانی کا نام فائنل کیا گیا،سوشل میڈیا پر انکوائری کمیشن سے متعلق غلط باتیں کی گئیں،حکومتی کمیشن کی تمام حکومتی ادارے معاونت کے پابند ہیں،سابق چیف جسٹس ناصر الملک کا نام بھی انکوائری کمیشن کیلئے سامنے آیا، تصدق جیلانی صاحب ایک غیر جانبدار شخصیت کے مالک ہیں، وزیر اعظم سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی سے ملے اور کمیشن کی تشکیل کا بتایا، سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے کہا ٹی او آرز کے بعد جواب دونگا۔
چیف جسٹس نیکہاکہ عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوگا تو میں اور سارے ساتھی کھڑے ہونگے،عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے،وکلا تب کیوں نہیں بولے جب چار سال تک فل کورٹ اجلاس نہیں ہوا، ہم کسی قسم کا دباو نہیں لیں گے۔
اٹارنی جنرل کیدلائل کمیشن کے پاس بہت سے اختیارات ہیں،کمیشن کی ساری کارروائی جوڈیشل ہو گی، چیف جسٹس نے دو نام تجویز کئے تھے، جسٹس ر ناصر الملک،جسٹس (ر)تصدق جیلانی کے نام تجویز کئے گئے،جسٹس(ر)تصدق جیلانی سے وزیر قانون نے ملاقات کی،جسٹس ر تصدق جیلانی نے ٹی او آرز مانگے،وزیر اعظم نے ٹی او آرز کے بعد دوبارہ جسٹس تصدق جیلانی سے رجوع کرنے کی ہدایت کی، جسٹس ر تصدق جیلانی نے ہفتہ کے روز ٹی او آرز پر اتفاق کیا۔
چیف جسٹس نیکہا اس کے بعد کچھ ذاتی حملے شروع ہوگئے، کون شریف آدمی ایسے ماحول میں خدمت کریگا، ایک دباو سوشل میڈیا سے بھی آتا ہے،عجیب و غریب باتیں شروع کردی گئیں،سمجھ نہیں آرہا ہم کہاں جارہے ہیں،جسٹس ر تصدق جیلانی شریف آدمی ہیں انہوں نے جواب نہیں دیا اور انکار کردیا،یہ تاثر کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات حکومت کو یا کمیشن کو دے دیے بلکل غلط ہے۔
چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ کے اختیارات آرٹیکل 184 سے شروع ہوتے ہیں، آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے پاس انکوائری کمیشن بنانے کا اختیار نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے استدعاکی عدالت کے سامنے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں ،عدلیہ کی آزادی پروفاقی حکومت کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، یہی سے فیصلے ہوئے،جے آی ٹیز بنی ، خلاف قانون مانیٹرنگ جج تعینات کئیگئے 2017سے 2021کے دوران جو کچھ ہوتا رہا وہ سب کے سامنے ہیں ، یہ یاد ضرور کروانا چاہتا ہو کہ یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے یہاں پر ، وفاقی حکومت عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔آپکے بارے میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں ،اٹارنی جنرل کا چیف جسٹس سے مکالمہ میں پھر سیٹ بیلٹ باندھ لوں، چیف جسٹس ،چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقے۔ آپکو مرزا افتخار نے قتل کی دھمکیاں دی ۔
اٹارنی جنرل کے دلائل یہ بات کرنا بہت ضروری ہے، تاریخ سب کے سامنے آنی چاہیے، مسز سرینا عیسی ایف آی آر درج کروانے گئی ، ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ، اسوقت کی وفاقی حکومت نے معاملہ ایف آی اے کو بھیج دیا،سرینا عیسی نے مرزا شہزاد اکبر اور لیفٹینٹ جنرل فیض حمید کے بارے بیان ریکارڈ کروایا، اسوقت کی وفاقی حکومت نے کوی ایکشن نہیں لیا، اس سارے دور میں دو چیف جسٹس پاکستان ریٹارڈ ہو گئے، آپ نے 24گھٹوں میں معاملے کو ٹیک اپ کیا ، وزیراعظم کی مکمل سپورٹ اس معاملے پر حاصل ہے۔
مانیٹرنگ جج کی تعیناتی آرٹیکل 203 کے خلاف تھی،مرزا افتخار نے چیف جسٹس صاحب آپ کو قتل کی دھمکیاں دی تھیں، آپ کی اہلیہ نے شہزاد اکبر اور فیض حمید کو نامزد کیا لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی،عدالت اس وقت اور آج کی حکومت کا کنڈکٹ دیکھے، ججز خط میں بیان کچھ واقعات ایک سال یا اس سے کچھ پرانے ہیں، ان واقعات کے شواہد جمع کرنے ہونگے اس لئے کمیشن تشکیل دینا مناسب سمجھا، عدالت کو آج بھی جو معاونت درکار ہے وفاقی حکومت فراہم کرے گی، ایک طرف عدلیہ کی آزادی دوسری طرف حکومت کی ساکھ بھی سٹیک پر ہے، اس بات کی نفی کرتا ہوں کہ حکومت کی عدلیہ کی آزادی کیخلاف کوئی پالیسی نہیں ہے۔
چیف جسٹس کے ریمارکس ہائی کورٹ ججز کا خط کئی مرتبہ پڑھا ہے اس کے کئی پہلو ہیں، خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا ہے میں صرف اس کا چیئرمین اور ممبر ہوں، تصدق جیلانی کی بات سے متفق ہوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو آئینی اختیار حاصل ہے، خط میں جسٹس شوکت صدیقی کیس کا بھی تذکرہ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کو عہدے سے ہٹایا، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ شوکت صدیقی کو صفائی کا موقع نہیں دیا، عدالتی فیصلہ ہائی کورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے،ججز کو دبائو ساتھی ججز، اہلخانہ، بچوں اور دوستوں سے بھی آ سکتا ہے،آج کل نئی وبا پھیلی ہوئی ہے سوشل میڈیا اور میڈیا کا بھی پریشر ہوتا ہے۔
عدالتی فیصلہ ہائیکورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے،ہائیکورٹ کے ججز نے خط میں لکھا کہ بہنوئی داماد وغیرہ پر دباو ڈالا گیا، خط میں یہ نہیں بتایا گیا کس نے براہ راست ججز پر دباو ڈالا، ہائیکورٹ کے ججز کے پاس توہین عدالت کا اختیار ہے وہ بھی استعمال ہوسکتا تھا،آئین پاکستان ججز کو توہین عدالت کا اختیار دیتا ہے، کسی اور عدالت کی توہین عدالت کی پاور میں استعمال نہیں کر سکتا،ہمارے پاس عام انتخابات کا معاملہ آیا تھا ، شرطیں لگی کہ الیکشن نہیں ہونگے ، بحث چھڑ گئی کہ عام انتخابات کی تاریخ کون دے گا؟ ، ہم نے بارہ دن میں اس کیس کا فیصلہ کردیا، عام انتخابات کی تاریخ آگئی تو سب خوشی خوشی چلے گئے، یہ نظام تب چلے گا جب ہر کوئی اپنا کام کرے گا۔سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ججز پر دباو کا خط آیا،سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نہ مجھ سے مشاورت کی نہ بتایا گیا،میرے سیکرٹری نے کہا ہائیکورٹ کے ججز آئے ہیں تو میں نے فوری ملاقات کی، میں ایگزیکٹو نہیں مگر پھر بھی ملاقات کر کے ججز کی بات سنی، ججز اگر توہین عدالت کا نوٹس کریں تو وضاحت کیلئے سب کو پیش ہونا ہوتا ہے۔
ججز نے خط میں کہا معاملے کی انکوائری کرکے ذمہ داران کا تعین کیا جائے، انکوائری پولیس، ایف آئی اے یا پھر کمیشن کر سکتا ہے،ججز نے کھل کر بات نہیں کی لیکن اشارہ کر دیا ہے، کبھی کسی جج کو توہین عدالت کی کارروائی سے نہیں روکا، توہین عدالت کی کارروائی کیلئے سپریم کورٹ سمیت کسی کو اجازت کی ضرورت نہیں،توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار ہائی کورٹ کو آئین نے دیا ہے،جس عدالت کی توہین ہو رہی ہے کارروائی بھی وہی کر سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل دلائل ججز کے خط میں 19 مئی 2023 کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ملاقات کا بھی ذکر ہے، ملاقات میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے۔
چیف جسٹس کیریمارکس وضاحت کر دوں کہ میں سینئر ترین جج تھا میرے بعد جسٹس سردار طارق سینئر تھے، ہم دونوں سینئر ججز کو چھوڑ کر جسٹس اعجاز الاحسن کو ملاقات میں شامل کیا گیا،مجھ سے اس معاملے پر کبھی کوئی مشاورت بھی نہیں ہوئی تھی،ہائی کورٹ کے ججز سے ملاقات ہوئی لیکن میرے پاس بطور سینئیر ترین جج کوئی اختیار ہی نہیں تھا، وزیراعظم کو عدالت میں نہیں بلا سکتے۔
چیف جسٹس ریمارکس آج آئین کی کتاب کھول کر لوگوں کو بتائیں، حکومت کو نوٹس دینگے تو اٹارنی جنرل یا سیکرٹری قانون آ جائیں گے، جب سے عہدے پر آیا ہوں کبھی عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا نہ کروں گا، کسی کو بے عزت کرنا ہمارا کام نہیں، پارلیمان، صدر اور حکومت سب کی عزت کرتے ہیں بدلے میں بھی احترام چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاعدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں زرہ برابر بھی کوتاہی نہیں ہوئی۔یہ بات نہ کریں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روک دیا ،موجودہ حکومت کی بات کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس کیریمارکس لوگ شرط لگا رہے تھے کہ الیکشن نہیں ہونگے، الیکشن کا کیس سنا اور بارہ دن میں تاریخ کا اعلان ہوگیا، سب سے ان کا کام کرائیں گے، کسی کا کام خود نہیں کرینگے، تین سو وکلا کا خط چل رہا ہے اس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں۔تین سو وکلا کا خط دیکھا جس پر کسی وکیل کے دستخط نہیں تھے ،اس طرح تو آپ میرا اوراپنا نام بھی لکھ دیں، پاکستان یا جمہوریت پر یقین کریں یا پھر نا کریں ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ بس میری چلے، اگلی بار آپ الیکشن جیت کر آ جائے گا۔
جسٹس اطہرمن اللہ کیریمارکس اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بات کی چیف جسٹس کو دھمکیاں دینے والے مرزا افتخار کی، کیا آپ نے یہ دیکھا کہ منطقی انجام تک پہنچا کہ نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کیریمارکس اٹارنی جنرل صاحب ایک ریفرنس دائر ہوا جس کے بارے میں اس وقت کے وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ غلطی تھی، اس پر کیا کاروائی ہو ئی۔
چیف جسٹس کے ریمارکس غلطیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں لیکن ہم نے اپنا احتساب کر کے دکھایا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ کیریمارکس سپریم کورٹ باتیں سب کرتے ہیں کوئی کرنا نہیں چاہتا ، آپ کی حکومت اس کیس کو منطقی انجام تک لے گئی ہوتی تو آپ بات کرتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کیس میرے متعلق ہے نہیں چاہتا تاثر جائے دباو ڈال رہا ہوں۔
جسٹس اطہرمن اللہ کیریمارکس مجھیبات پوری کرنے دیں، ج یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی، ججوں کا خط یہ بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا فیصلے کی وجہ سے آیا تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کیریمارکس ہم نے اپنا احتساب کیا حکومت بھی اپنی ذمہ داری پورے کرے، ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مداخلت یہاں رک جائے اور مستقبل میں نہ ہو۔
جسٹس منصورعلی شاہ کیریمارکس شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کر نہیں بیٹھ سکتے،سول جج سے سپریم کورٹ تک اس معاملے پر پورا نظام بنایا ہوگا، عدلیہ میں مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند کرنا ہوگا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ضمانت دی اور اس فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا چھہتر سال سے ملک کیساتھ یہ ہو رہا ہے۔
جسٹس نعیم اخترافغان کے ریمارکس ایم پی او کا سہارا لیکر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی حکومت ہی کر رہی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ کے ریمارکس ہم آنکھیں بند کر کے یہ تاثر نہیں دے سکتے ہمیں کچھ پتہ نہیں، چھہتر سال سے جو ایک سوال تک ججوں کے خط میں وہ آیا ہے۔
چیف جسٹس کے ریمارکس صدر سپریم کورٹ بار کو سن لیتے ہیں، کیا سپریم کورٹ خود کسی مسڑ ایکس کو مداخلت کا ذمہ دار قرار دے سکتی ہے؟ ہم کیسے تفتیش کریں گے کسی نہ کسی سے انکوائری کرانا ہو گی۔
صدرسپریم کورٹ بارکے دلائل اسی لئے سپریم کورٹ بار انکوائری کمیشن کی حامی تھی،کسی اور نے کوئی متبادل راستہ بھی نہیں بتایا۔
سپریم کورٹ نے معاونت کیلئے تحریری معروضات مانگ لی۔
چیف جسٹس کے ریمارکس سپریم کورٹ نے معاونت کیلئے تحریری معروضات مانگ لی یہ بھی سوال اٹھا سات ججز بیٹھے ہیں فل کورٹ کیوں نہیں بیٹھا؟ جتنے ججز اسلام آباد میں دستیاب تھے وہ یہاں موجود ہیں، دوسرے شہروں میں جانیوالے ججز عید کے بعد دستیاب ہونگے۔
سپریم کورٹ نے سماعت 29اپریل تک ملتوی کر دی ۔
چیف جسٹس نے کہاکہ باقی ججز سے مشورہ کرکے جلد بھی سماعت کی جاسکتی ہے، ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرینگے۔