پاکستانتازہ ترین

قیادت سے محروم پی ٹی آئی اندرونی اختلافات کا شکار،دھڑے بندی نے جڑ پکڑنا شروع کردی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان دنوں خود کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے حوالے سے بحران میں گھِرا محسوس کررہی ہے کیونکہ سینئر رہنماؤں اور سیاستدانوں کے درمیان لڑائی نے پارٹی کو عملی طور پر ’قیادت سے محروم‘ کردیا ہے، اور دھڑے بندی نے جڑ پکڑنا شروع کردی ہے۔

اگرچہ پارٹی کے ترجمان ہمیں یہ ماننے پر مجبور کریں گے کہ سب ٹھیک ہے اور یہ کہ معمولی اختلافات سیاسی عمل کا حصہ ہوتے ہیں لیکن درحقیقت پارٹی کے کارکنان اپنے رہنماوں سے ناراض ہیں اور اس کی معقول وجہ ہے۔
پچھلے 2ہفتے کے دوران کم از کم پارٹی کے محنتی کارکنوں اور رضاکاروں کی نظروں سے دیکھیں تو ان کے اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے قیادت نے عمران خان کو اکیلا چھوڑ دیا ہے اور احتجاج کے اس راستے سے بھٹک گئے ہیں جس کا انہوں نے حکم دیا تھا۔
اس کی واضح مثال بیرسٹر گوہر علی خان کی جانب سے عمران خان کے طبی معائنے کے حوالے سے مؤقف کے درمیان پائی جانے والی خلیج ہے جہاں اس طبی معائنے کا منگل کو وعدہ کیا گیا تھا، پارٹی کے وفادار کارکنوں کا ماننا ہے کہ حکومت بانی پی ٹی آئی کے ذاتی معالج کو اڈیالہ جیل میں داخل ہونے سے روک کر اپنے وعدے سے مکر گئی ہے۔
تاہم بیرسٹر گوہر نے ایسا محسوس کرانے کی کوشش کی کہ پہلے سے ہی پمز کے ڈاکٹروں کے معائنے کا منصوبہ تھا اور انہوں نے شاید ایسا جمائما گولڈ سمتھ کے خط کے جواب میں کہا جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود ان کے سابق شوہر کو اپنے بیٹوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین نے برملا کہا کہ ’سب ٹھیک ہے‘۔
پارٹی میں دھڑے بندی اور سرکردہ رہنماوں میں تلخی:
پارٹی کارکنوں کی اکثریت اپنی قیادت کی جانب سے دی جانے والی احتجاج کی کالوں کے طریقہ کار اور پھر انہیں منسوخ کرنے کے انداز سے ناراض نظر آتی ہے، خطرناک صورتحال یہ ہے کہ انفرادی طور پر طاقتور افراد کی زیر سربراہی مختلف دھڑے مرکزی قیادت کی عدم موجودگی میں پارٹی کے اندر پیدا ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے سے مسلسل متصادم ہیں۔
مثال کے طور پر جب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے مشکلات کے باوجود مظاہرین کے ایک کارواں کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کیا تو پارٹی کے خیبر پختونخوا کے دھڑے کو اسی جذبے کا مظاہرہ نہ کرنے پر پنجاب میں موجود اپنے ساتھیوں پر تنقید کرتے دیکھا گیا۔
اسی طرح حکومت کی جانب سے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی اجازت دینے سے ابتدائی انکار کے تناظر میں پنجاب کے دھڑے نے سب سے پہلے 15 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
پنجاب میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسی دھمکی نے حکومت کو اپنا لب و لہجہ نرم کرنے پر مجبور کیا اور قیادت کو اس موقع کو اپنے جو بھی مطالبات تھے انہیں پورا کرانے کے لئے استعمال کرنا چاہئے تھا تاہم منگل کو پارٹی بظاہر اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی اور ڈاکٹر اور خاندان کے افراد سے ملاقاتیں کرانے میں ناکام رہی۔
اگرچہ سوشل میڈیا پر ملک بھر میں پارٹی کے مختلف رہنماؤں کے درمیان اختلافات، جھگڑوں اور خراب تعلقات کے حوالے سے قیاس آرائیوں کی بھرمار ہے جس میں پارٹی کے پنجاب کے رہنما حماد اظہر اور علی امین گنڈا کے درمیان حال میں ہونے والا مبینہ جھگڑا بھی شامل ہے البتہ کچھ پارٹی رہنما اس کی وجہ اپنی کاتاہیوں کے بجائے حکومتی اقدامات کو قرار دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات شوکت بسرا نے پارٹی کے اندر گروپ بندی کی اطلاعات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی جیسی بڑی جماعت کے لئے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے سے فیصلے کرنے میں کئی مسائل ہیں کیونکہ ہمارے قائد عمران خان حراست میں ہیں اور ان سے جان بوجھ کر رابطہ منقطع کیا گیا ہے۔
شوکت بسرا نے کہا کہ ہر رہنما کی اپنی ذہنیت ہوتی ہے، مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے پی ٹی آئی کے ساتھ دھوکا دہی کی اور صرف سرکاری ڈاکٹروں کو عمران خان کا معائنہ کرنے کی اجازت دی حالانکہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ 15 اکتوبر کو بانی پی ٹی آئی کے ذاتی معالج اور بہن کو ان تک رسائی دی جائے گی۔
پی ٹی آئی لاہور کے سیکرٹری اطلاعات شایان بشیر نے بھی اعتراف کیا کہ ان کے پاس اطلاعات ہیں کہ کارکنان اور نوجوان تنظیموں کی بڑی تعداد پمز کے ڈاکٹروں سے عمران خان کا طبی معائنہ کرانے کے پارٹی کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہے۔
عمران خان کی 2 بہنیں عظمیٰ اور علیمہ خان پہلے ہی جیل میں ہیں لہٰذا عمران خان کی تیسری بہن نورین نیازی ہی رہ جاتی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی خیریت کی تصدیق کے لئے انہیں جیل میں ان سے ملنا چاہئے۔
نورین نیازی اب تک سیاسی میدان سے باہر رہی ہیں لیکن وہ اس سیاسی چکا چوند میں قدم رکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ بانی پی ٹی آئی کے خاندان کی واحد رکن ہیں جو اس وقت جیل میں نہیں ہیں، ان کا بیٹا حسان نیازی بھی 9 مئی کو ہونے والے فسادات کے مقدمات میں فوجی حراست میں ہے اور وہ آخری فرد تھیں جنہوں نے اس ماہ کے اوائل میں میں اڈیالہ جیل میں خان صاحب سے ملاقات کی تھی۔
گوکہ یہ ظاہر کیا گیا حماد اظہر نے پارٹی کے تمام ٹکٹ ہولڈرز اور عہدیداروں کو 15 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچنے کے لئے جارحانہ کال دی تھی تاہم پارٹی کارکنوں کے ساتھ پس پردہ ہونے والی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کیونکہ پی ٹی آئی کے نوجوان اور طلبہ سمیت تمام کارکن اور رہنما نورین نیازی کی کال پر اسلام آباد کی طرف مارچ کے لیے تیار ہو گئے تھے۔
اس کے بعد جب احتجاج ختم کر دیا گیا تو حماد اظہر اور کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے درمیان تکرار اور تناؤ کی خبریں گردش کرنے لگیں، پیش رفت سے باخبر بعض اندرونی ذرائع نے تصدیق کی کہ دونوں کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا، مسٹر اظہر نے مبینہ طور پر کے پی کے وزیر اعلیٰ کو ان کی گمشدگی پر تنقید کا نشانہ بنایا جس میں اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے پارٹی کارکنوں کو عملی طور پر تنہا چھوڑ دیا گیا تھا، اس کے جواب میں علی امین گنڈا پور نے کہا کہ حماد اظہر واضح طور پر سیاسی جدوجہد کا حصہ نہیں ہیں۔
ملتان اور ساہیوال میں پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد حماد اظہر کی جانب سے پنجاب بھر کے شہروں میں پہلے سے شیڈول احتجاجی مظاہروں کو منسوخ کرنے پر پارٹی کے متعدد کارکنان بھی مشتعل ہو گئے، اس دوران ارکان پارلیمنٹ سمیت 200 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کرکے مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایک مشتعل پارٹی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پارٹی کو چلانے والے سیاسی کمیٹی میں بیٹھے رہنما ’سمجھوتہ‘ کر بیٹھے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان سب کو اپنے کاروباروں اور خاندانوں کے حوالے سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جس نے انہیں حکومتی دباؤ کی مخالفت اور دارالحکومت میں مارچ کرنے جیسے سخت فیصلے کرنے کے حوالے سے بالکل بے بس کردیا ہے۔
پارٹی رہنما نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب میں پارٹی کے اندر اب بہت سے گروپ کام کر رہے ہیں، حماد اظہر گروپ، میاں اسلم گروپ، شیخ امتیاز اور کرنل (ریٹائرڈ) اعجاز منہاس کے اپنے اپنے دھڑے ہیں جبکہ عون بپی اور قریشی ہیں، جنوبی پنجاب میں قبائلی گروہ اور شمالی پنجاب میں طاہر صادق اور زلفی بخاری کے گروہ وغیرہ بھی ہیں۔
"ڈان” سے بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا پوری پارٹی کے ساتھ ایک پیج پر ہے اور 15 اکتوبر کو احتجاج کرنے کے اپنے فیصلے پر عمل کرنے کے لئے تیار تھے تاہم پھر پارٹی رہنما اور کارکنان مستقل احتجاج کی پالیسی سے وقفہ لینا چاہتے تھے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ ہم خیبر پختونخوا میں پی ٹی ایم جرگہ پر نگرانی کررہے تھے اور احتجاج کے فیصلے پر عمل کرنے کے لئے تیار تھے لیکن پارٹی چیئرمین نے رات گئے احتجاج کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد ہم رک گئے۔
صوبائی رہنماؤں کی جانب سے احتجاج سے گریز کرنے کے تاثر کی نفی کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے مشیر نے مزید کہا کہ صوبے نے سنگجانی، لیاقت باغ، لاہور اور اسلام آباد میں یکے بعد دیگرے 4 احتجاجی مظاہروں میں جارحانہ انداز میں آگے آیا اور 15 اکتوبر کے احتجاج میں شرکت کا منصوبہ بنایا تھا۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے پارٹی ایم پی اے کی میٹنگ بھی بلائی تھی اور انہیں ڈیوٹی سونپی تھی لیکن پارٹی چیئرمین نے وزارت داخلہ کی پیشکش پر احتجاج ختم کر دیا تھا، پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کو عمران خان کی صحت اور ان سے ملاقات پر پابندی کے حوالے سے زیر گردش افواہوں پر بھی تشویش ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button