نئے قانون کے تحت ریڈ زون میں احتجاجی مظاہروں پر پابندی، وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی سفارتی کور کو بریفنگ
اسلام آباد: نائب وزیرِ اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ریڈ زون کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے "پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر ایکٹ 2024” کے نفاذ کا اعلان کیا، جس کے تحت ریڈ زون میں احتجاجی مظاہروں پر پابندی عائد کی گئی ہے اور کسی بھی عوامی اجتماع کے لیے مجسٹریٹ سے اجازت ضروری ہوگی۔
نائب وزیرِ اعظم نے بدھ کو یہاں سفارتی کور کے ارکان کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مظاہرین کی وجہ سے پیدا ہونے والی حالیہ صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریڈ زون میں کسی بھی احتجاجی اجتماع کے انعقاد سے روک دیا تھا۔ عدالتی فیصلے کی تعمیل میں حکومت نے وزیر داخلہ محسن نقوی کو پی ٹی آئی سے رابطہ کرنے کی ذمہ داری دی تھی، تاہم یہ کوششیں ناکام رہیں۔
نائب وزیرِ اعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمیشہ ریڈ زون کی سکیورٹی کو ترجیح دی ہے، جس میں پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ آف پاکستان، وفاقی ادارے اور سفارتی انکلیو شامل ہیں۔ اسحاق ڈار نے سفارت کاروں کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو احتجاج کا اعلان کیا تھا، جو کہ بیلاروس کے صدر کے دورے کے موقع پر تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی کے اہم تاریخوں پر مظاہروں کا شیڈول کرنے کی ماضی کی خراب روش سے ہم آہنگ ہے۔ نائب وزیرِ اعظم نے یاد دلایا کہ حال ہی میں ایس سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر پی ٹی آئی نے احتجاج کیا تھا، جبکہ 2014 میں اس کے احتجاج کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہو گیا تھا۔
نائب وزیرِ اعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی کی 35 نشستوں پر دھاندلی کے دعوے مسترد کر دیے تھے، جو 2014 کے دھرنے کی بنیادی وجہ بنے تھے، اور حکومت کے ساتھ تحریری معاہدے کے باوجود پی ٹی آئی نے کبھی معافی نہیں مانگی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے متبادل احتجاجی مقام پیش کرنے کے باوجود پی ٹی آئی نے ضد کے ساتھ ریڈ زون میں مارچ کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ آزادیوں اور انسانی حقوق کو ایسے طریقے سے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے جس سے لاقانونیت پیدا ہو اور پاکستانیوں اور سفارتی کور کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ نائب وزیرِ اعظم نے کہا کہ حکومت نے تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف واٹر کینن اور آنسو گیس سے لیس تھے، گولہ بارود سے نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سفارتی انکلیو، پارلیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم ہاؤس اور دیگر اہم عمارتوں کی حفاظت کے لیے فوج کے ساتھ پولیس اور رینجرز کو تعینات کیا گیا تھا۔ اسحاق ڈار نے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں مارچ کرنے کے لیے عوامی وسائل کے استعمال کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ کسی بھی وفاقی اکائی کو ایسا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔