معصوم، بے زبان و بے گھر کتوں کو مارنے کی باتیں سن کر دل شدید دکھی ہے۔ پورے پاکستان میں کتا کاٹنے کے واقعات کی تعداد محض تین سے چار ہے۔ معصوم کتوں کو مورود الزام ٹھہرانے سے پہلے سوچیے کہ ہم نے ان بے زبانوں کو سوائے نفرت کے دیا ہی کیا ہے؟
ُگاؤں سے لیکر شہر تک ہر جگہ ان کو دیکھتے ہی دھتکار کر بھگا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ بلاوجہ پتھر مار کر یا چھڑی کے ساتھ پیٹا جاتا ہے کہ بھاگو یہاں سے، جب آپ بے زبانوں کو بلاوجہ پتھر مارو گے تو جواب میں خیر کی امید کیونکر رکھنی۔
آپ نے کسی بے گھر کتے یا بلی کو آخری دفعہ روٹی کا ٹکڑا کب دیا، کبھی پرندوں کیلئے گھر کی چھت یا باغیچے میں دانہ یا پانی رکھا؟
کل سے نہیں آج سے ہی تجربہ کرکے دیکھ لیجئے گھر کے باہر گھومتے کسی کتے یا بلی کو روٹی یا گوشت کا ایک ٹکڑا دیجئے وہ فوری طور پر آپ کو پلکیں جھپک کر یا دم ہلا کر شکریہ ادا کرے گا جبکہ آسمان کی طرف نظر اٹھا کہ رزق کی فراہمی کیلئے اللہ کا شکر ادا کرتا نظر آئے گا۔
یورپین ممالک کی اکثریت جبکہ بہت سارے اسلامی ممالک میں بھی جنگلات، سڑک کنارے اور فٹ پاتھ پر لکڑی کے چھوٹے چھوٹے باکس رکھے ہوتے ہیں کہ کتے اور بلیاں موسمی شدت سے بچ سکیں جبکہ "فوڈ شئیرنگ ود اینمل” تو عام رویہ ہے۔
بچپن میں ہم بہن بھائیوں نے صبح ناشتے میں امی سے دو روٹیاں لینی ایک خود کھانی جبکہ ایک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے پرندوں کوڈال دینے۔
امی نے گھر کی چھت پر مٹی کے کونڈوں میں گندم، باجرہ اور پانی بھر کر رکھ دینا کہ پرندے کھائیں گے۔
بچن میں ایک دفعہ سکول جاتے ہوئے راستے میں دیکھا کہ ایک کتا گندگی کے ڈھیر سے کھانے کیلئے کچھ تلاش کر رہا تھا میں نے لنچ بکس والا کھانا اسے دے دیا،کھانا کھا کر اس نے جس طرح سے آسمان کی طرف دیکھا وہ منظر دیدنی تھا کہ یہ ایک روٹی کیلئے بھی فوری اللہ کا شکر ادا کر رہا ہے۔
تب سے آج تک عادت ہے کہ میں ڈبل روٹی اور بسکٹ ساتھ رکھ لیتا ہوں جہاں بھی کتا بلی یا جانور بھوکا لگے اسے کھلا دیتا ہوں۔
پریمیئم، سگنیچر اور infinte کارڈ پر مختلف بیکری شاپ پر 50فیصد تک ڈسکاؤنٹ مل جاتا ہے، اپنی استطاعت کے مطابق ڈسکاؤنٹڈ اشیاء لے کر ان بےزبان جانوروں میں تقسیم کر کے جو دلی تسکین ملتی ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
انسانیت صرف انسانوں کے ساتھ اچھے سلوک کا نام نہیں بلکہ اصل انسانیت یہی ہے کہ آپ اپنے ارد گرد تمام جانداروں کاخیال رکھیں خاص طور پر بے زبان پرندوں اور جانوروں کا، انہیں بھی بھوک لگتی ہے، انہیں ناصرف کھانا دیجئے بلکہ سردی کی شدت اور گرمی کی حدت سے بچانے کیلئے بھی جتنا ہوسکے ضرور کوشش کریں۔
بے زبان جانوروں پر پتھر برسانے، تشدد کرنے اور انکو زہر دیکر مارنے کی بجائے انہیں روٹی یا گوشت کا ایک ٹکڑا دے دیں۔ جس کتے کو آپ نے کبھی ایک ٹکڑا روٹی بھی دی ہوگی وہ کبھی پلٹ کر آپکو نہیں کاٹے گا۔
ان بے زبان اور معصوم جانور کو نفرت اور زخم نہیں محبت اور پیٹ بھرنے کیلئے کھانا دیجئے۔
فریش کھانا نہیں دے سکتے تو کم از کم مہمانوں کا بچا ہوا کھانا ہی ڈال دیا کریں۔
یہ جانور نہ صرف معصوم اور پیارے ہیں بلکہ اس زمین کیلئے ضروری بھی ہیں انہیں ختم کرکے ماحولیاتی آلودگی کو مزید سنگین اور خطرناک حد تک نہ لیکر جائیں۔حکومت اور سرکاری انتظامی مشینری کو چاہئے کہ ان بے گھر کتوں کو زہر نہیں ویکسینشن کریں تاکہ یہ بھی معاشرے کا پرامن اور خوبصورت کردار بن کر زندگی گزار سکیں۔ یورپ میں کتے گھر کے فرد بھی ہیں اور معاشرے کا کارآمد کردار بھی جہاں یہ سکیورٹی سے لیکر بچوں کوانسانی شکل والے حیوانوں سے بچا کر باحفاظت سکول ڈراپ کرنے تک کا کام کرتے ہیں۔
حضرت عمر کا کہنا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک پیاس سے مرگیا تو اللہ کو حساب دینا ہوگا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک بہت گنہگار خاتون کو اللہ نے اس بات پر معاف کر دیا کہ اس نے اپنے موزے کی مدد سے کنویں سے پانی نکال کر پیاسے کتے کو دیا ۔
بے زبان و بے گھر جانوروں کے تحفظ کے لیے ڈی آئی جی اپریشن لاہور فیصل کامران انتہائی قابل تعریف و تقلید کردار ادا کر رہے ہیں ۔ لاہور پولیس کے زیر انتظام پولیس اینیمل ریسکیو سینٹر میں زخمی کتے اور بلیوں کے لیے بہترین علاج معالجہ اور کھانےکی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔
ہم اپنے پالتو کتوں ہسکی، جرمن شیفرڈ اور گولڈن ریٹریور پر ماہانہ پچاس ہزار سے دولاکھ تک خرچ لیتے ہیں لیکن گلیوں بازاروں میں گھومنے والے ان بے گھروں کوایک وقت کی روٹی بھی نہیں دے سکتے۔
وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں خاص طور پر انتہائی درد دل رکھنے والی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے گزارش ہے کہ میڈم خدارا ان بے زبان و بے گھر مخلوق کا سہارا بنیں، ان کیلئے ووڈن ہوم، ویکسینیشن، ویٹنری ہسپتال، اینیمل ریسکیو سینٹر اور معیاری خوارک کی فراہمی کا انتظام کرکے پنجاب کو بین الاقوامی سطح پر مثبت تشخص کے ساتھ متعارف کروائیے۔