افغان رجیم ناصرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکی ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر
ڈی جی آئی ایس پی آر کی سینئر صحافیوں سے ملاقات میں ملکی سلامتی پر اہم بریفنگ
ڈی جی آئی ایس پی آر نے 25 نومبر کو سینئر صحافیوں سے ملاقات میں ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورتحال، سرحدی چیلنجز اور دہشتگردی کے خلاف جاری کارروائیوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ بتایا گیا کہ 4 نومبر 2025 سے اب تک 4910 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 206 دہشتگرد مارے گئے۔ رواں سال ملک بھر میں 67023 آپریشنز جبکہ خیبر پختونخوا میں 12857 اور بلوچستان میں 53309 آپریشن کیے گئے۔ مجموعی طور پر 1873 دہشتگرد ہلاک ہوئے جن میں 136 افغان بھی شامل تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک افغان بارڈر انتہائی دشوار گزار ہے جہاں متعدد مقامات پر پوسٹوں کے درمیان فاصلے 20 سے 25 کلومیٹر تک ہیں، جس کے باعث مکمل کنٹرول ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بارڈر مینجمنٹ دونوں ممالک کے درمیان تعاون سے مؤثر ہوتی ہے، لیکن افغانستان کی جانب سے دہشتگردی کی سہولت کاری کی جا رہی ہے اور افغان طالبان کی جانب سے دراندازی کو روکنے میں کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ افغان علاقوں میں دہشتگرد تنظیموں کے مراکز، اسلحہ اور فنڈنگ کے انتظامات موجود ہیں جو پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ طالبان رجیم کا یہ دعویٰ کہ پاکستان مخالف جنگجو ’’مہمان‘‘ ہیں، غیر منطقی ہے اور اگر وہ پاکستانی ہیں تو انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا کے انخلا کے دوران 7.2 بلین ڈالر کا فوجی سازوسامان افغانستان میں رہ گیا جو اب دہشتگرد گروہوں کے ہاتھ لگ چکا ہے، جس سے خطے کو خطرات لاحق ہیں۔ دوحہ معاہدے کے تحت افغان طالبان نے اپنی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کا وعدہ کیا تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا۔
دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان سے کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ طالبان رجیم کے رویے سے ہے، کیونکہ یہ تمام قومیتوں کی نمائندگی نہیں کرتی اور خواتین سمیت نصف آبادی اس نظام میں شامل نہیں۔ ان کے مطابق تجارت کا معاملہ سیکیورٹی سے جڑا ہوا ہے اور خونریزی اور تجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا بیانیہ بیرون ملک سے چلنے والے اکاؤنٹس کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے، جن کا مقصد ملک میں انتشار پھیلانا ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق نیشنل ایکشن پلان پر ہے، جس کے عملی نفاذ کے لیے بلوچستان میں موثر نظام موجود ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں اس کی کمی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ دہشتگردی کی بڑی معاونت ہے، جس کی یومیہ اسمگلنگ 20.5 ملین لیٹر سے کم ہوکر 2.7 ملین لیٹر رہ گئی ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ دہشتگرد تنظیموں کو جاتا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلوچستان کے 27 اضلاع پولیس کے دائرہ اختیار میں آ چکے ہیں اور وہاں صوبائی حکومت اور سیکیورٹی فورسز روزانہ کی بنیاد پر مقامی آبادی سے رابطے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے اچھے یا برے دہشتگرد میں کوئی فرق نہیں، اچھا دہشتگرد وہی ہے جو مارا جا چکا ہو۔ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے تحت 2024 میں 366,704 اور 2025 میں 971,604 افراد وطن واپس جا چکے ہیں، جن میں صرف نومبر کے دوران 239,574 افراد شامل تھے۔
ہندوستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بھارتی قیادت خود فریبی کا شکار ہے اور سندور آپریشن سے متعلق بھارتی آرمی چیف کے بیانات جھوٹ پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کے دعووں کے مطابق صورتحال ہوتی تو ’’ٹریلر‘‘ نہیں بلکہ ہارر فلم جیسا انجام ہوتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر کسی ملک نے طالبان رجیم کو اسلحہ فراہم کیا تو وہ دہشتگردوں کے ہاتھ ہی لگے گا۔