27 ویں ترمیم سینیٹ سے منظور کرانے کی حکمت عملی فائنل ، اتحادی جماعتوں سے ساتھ دینے کا وعدہ لے لیا گیا
حکومت نے 27 ویں ترمیم سینیٹ سے منظور کرانے کی حکمت عملی فائنل کر لی ، اتحادی جماعتوں سے ساتھ دینے کا وعدہ لے لیا گیا ہے۔
تفصیل کے مطابق اس وقت آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ سے 64 ارکان کے ووٹ درکار ہیں، سینٹ میں اپوزیشن بینچز پر30 ارکان موجود ہیں جو لازمی طور پر آئینی ترمیم کی مخالفت کریں گے۔سینیٹ پارٹی پوزیشن کے مطابق حکومتی بینچز پر اس وقت پیپلزپارٹی 26 سینٹرز کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ حکومتی بینچز پر مسلم لیگ ن کے 20، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 ارکان ہیں، حکومتی بینچز پر ایم کیو ایم پاکستان کے 3، نیشنل پارٹی کا ایک اور پاکستان مسلم لیگ ق کا بھی ایک سینیٹر ہے۔
اس کے علاوہ حکومتی بینچز پر 3 آزاد سینیٹرز ہیں جن میں سینیٹر عبدالکریم، سینیٹر عبدالقادر اور محسن نقوی ہیں۔ تین سینیٹرز انوار الحق کاکڑ، اسد قاسم اور سینیٹر فیصل واوڈا نہ حکومتی اور نہ ہی اپوزیشن بینچز پر بیٹھتے ہیں۔ یہ تینیوں سینیٹرز حکومت کو ووٹ دیتے ہیں، اس طرح سینیٹ میں حکومت کو 67 ارکان کی حمایت حاصل ہے.ذرائع نے بتایا ہے کہ مولانا فضل الرحمان بھی مشروط حمایت پر تیار ہو جائیں گے،نہ بھی ہوئے تو حکومت کے پاس نمبر پورے ہیں۔
27ویں آئینی ترمیم پر غور کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹیوں کے اجلاس کے دوران مسلح افواج کےسربراہوں کی تقرری سمیت مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے 27 ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ کو منظور کرلیا۔آئین کے آرٹیکل 243 پر تفصیلی مشاورت کے بعد منظوری دی گئی۔ اضافی ترامیم پر آج حتمی فیصلہ کر لیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے اور بلوچستان میں اسمبلی کی نشستیں بڑھانےکی تجویز پر حکومت نے وقت مانگ لیا ہے۔آئینی عدالتوں کے قیام اور زیرِ التوا مقدمات کے فیصلے کی مدت 6 ماہ سے بڑھا کر 1 سال کرنے کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی ہے، ایم کیو ایم کی بلدیاتی نمائندوں کو فنڈ دینے سے متعلق ترمیم پر اتفاق ہو گیا ہے۔امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ سینیٹ آج ترمیمی بل کی منظوری دیدے گی۔