حکومتی حلقوں کی سفارش نے جامعہ کراچی کے ایک شعبے کو زبوں حالی پر پہنچا دیا

حکومتی حلقوں کی سفارش نے جامعہ کراچی کے ایک شعبے کو زبوں حالی پر پہنچا دیا

0

جامعہ کراچی کا شعبہ ویژول اسٹڈیز، جو تقریباً تین دہائیاں قبل قائم کیا گیا تھا، اپنی سلور جوبلی کے بعد داخلوں میں نمایاں کمی کا شکار ہے۔ ماضی میں اس شعبے میں داخلے کے لیے 1200 سے 1500 طلبہ درخواست دیتے تھے، تاہم اب یہ تعداد کم ہو کر 300 سے بھی نیچے آگئی ہے۔

اس سال شعبہ ویژول اسٹڈیز کے داخلہ ٹیسٹ میں صرف ڈھائی سو سے زائد طلبہ شریک ہوں گے، جو جامعہ انتظامیہ اور اساتذہ کے لیے تشویشناک صورتحال قرار دی جا رہی ہے۔ شعبے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ طلبہ کی دلچسپی میں کمی کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر عدم توجہی بھی اس زوال کی بڑی وجہ ہے۔

ذرائع کے مطابق ماضی میں ہر سال داخلوں کے دوران سفارشات کے باعث میرٹ پر آنے والے طلبہ کی جگہ کم پڑ جاتی تھی، مگر اب صورتحال الٹ چکی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ داخلہ فارم کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ چند برس قبل فارم کی قیمت ایک ہزار روپے تھی، جو اب بڑھ کر پانچ ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس اضافے کے باعث وہ طلبہ جنہیں فنونِ لطیفہ کے حوالے سے محدود علم تھا، اپلائی کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں، اور صرف وہی امیدوار درخواست دے رہے ہیں جو اس شعبے میں حقیقی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پرفارمنگ اور انڈسٹریل آرٹس کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر سنجیدہ اقدامات نہ ہونے سے بھی جامعہ کراچی کے شعبہ ویژول اسٹڈیز کو نقصان پہنچا ہے۔ اس شعبے کو جدید لیبارٹریز، آلات اور مشینری کے لیے خاطر خواہ فنڈز درکار ہیں، تاہم گزشتہ 27 برسوں میں وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی بڑا مالی تعاون نہیں ملا۔

نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) لاہور کے وائس چانسلر مرتضیٰ جعفری نے کہا کہ ان کے ادارے میں اس کے برعکس رجحان دیکھنے میں آیا ہے، جہاں داخلوں کے لیے درخواستوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹس ایجوکیشن کی اہمیت میں کمی نہیں آئی، مگر اداروں کے انتظامی چیلنجز اس کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔

جامعہ کراچی کا شعبہ ویژول اسٹڈیز 1998 میں سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظفر زیدی کے دور میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ کراچی کا پہلا ادارہ تھا جس نے باقاعدہ طور پر فائن آرٹس، گرافک ڈیزائن، فلم، آرکیٹیکچر، ٹیکسٹائل ڈیزائن، انڈسٹریل ڈیزائن اور اسلامی آرٹ میں ڈگری پروگرامز متعارف کروائے۔

آج کے مقابلے میں اس شعبے کے لیے پہلے 1100 سے 1400 تک امیدوار اپلائی کرتے تھے، جبکہ اب صرف چند سو طلبہ داخلے کے خواہش مند ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نجی جامعات جیسے حبیب یونیورسٹی، اقراء یونیورسٹی، انڈس یونیورسٹی، انڈس ویلی اور زیبیسٹ کے قیام نے بھی طلبہ کی توجہ تقسیم کر دی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تعاون نہ کیا تو جامعہ کراچی میں پرفارمنگ آرٹس کی یہ واحد سرکاری درسگاہ مستقبل میں اپنے وجود کے لیے مزید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.