جنوبی وزیرستان: سیکیورٹی فورسز نے افغان اور بھارتی گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کر لیں۔ چار روزہ کارروائیوں کے دوران 130 سے زائد خوارج ہلاک ہوگئے، جبکہ قبائلی عوام نے فورسز کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں 13 سے 15 اکتوبر کے دوران انٹیلی جنس معلومات پر مبنی کارروائیاں کی گئیں، جن میں مجموعی طور پر 34 دہشت گرد مارے گئے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے اسپن وام میں 18، جنوبی وزیرستان میں 8 اور ضلع بنوں میں مزید 8 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ خوارج کے مکمل خاتمے کے لیے سینیٹائزیشن آپریشنز جاری ہیں، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نیشنل ایکشن پلان کے تحت "عزمِ استحکام” کے وژن کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔
اٹلی نے اسرائیل کو فیفا ورلڈکپ 2026 سے باہر کردیا
ادھر ضلع مہمند میں دراندازی کی ایک بڑی کوشش ناکام بناتے ہوئے 45 سے 50 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ کارروائی خفیہ اطلاع پر کی گئی، جس میں افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا۔ فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا اور علاقے میں کلیئرنس آپریشن مکمل کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق افغان طالبان رجیم اور بھارت کے درمیان پاکستان مخالف پروپیگنڈا نیٹ ورک بے نقاب ہوگیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے جھوٹے بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، تاہم فیکٹ چیک پلیٹ فارم "گروک” نے ان بیانات کو غلط ثابت کیا۔
پاکستانی دوستی گیٹ کے حوالے سے افغان ترجمان کے دعوے کی بھی تردید کی گئی۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق گیٹ پاکستان کی سمت مکمل حالت میں موجود ہے، جبکہ افغانستان کی طرف طالبان نے خود دھماکہ خیز مواد نصب کر کے گیٹ تباہ کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کا میڈیا اس وقت افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے بیانیے کو فروغ دے رہا ہے اور جھوٹی ویڈیوز کے ذریعے پاکستان کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔
بلوچستان کے ضلع چمن میں کاکڑ قبیلے کے عمائدین نے پاک فوج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہماری ماں ہے، اس کی حفاظت کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
دوسری جانب افغانستان میں عوام اور تاجروں نے طالبان حکومت سے طورخم بارڈر کھولنے کا مطالبہ کیا۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ تجارت بند ہونے سے افغانستان کی معیشت شدید متاثر ہو رہی ہے اور ہزاروں گاڑیوں کا سامان ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔