نہم جماعت کے نتائج لمحۂ فکریہ

تحریر اصف اقبال

0

پنجاب بھر کے تعلیمی بورڈز نے جماعت نہم کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ اعداد و شمار نہایت تشویش ناک ہیں، کیونکہ مجموعی کامیابی کی شرح پچاس فیصد سے بھی کم رہی۔ لاہور بورڈ میں پاس ہونے والے طلبہ کا تناسب صرف 45 فیصد، فیصل آباد میں 51 فیصد، سرگودھا اور ساہیوال میں 46 فیصد، بہاولپور میں 43 فیصد جبکہ راولپنڈی میں محض 42 فیصد رہا۔ اگرچہ ڈیرہ غازی خان بورڈ نے سب سے زیادہ 57 فیصد کامیابی حاصل کی، مگر مجموعی طور پر یہ صورتحال ہمارے تعلیمی ڈھانچے پر کئی سنگین سوالات کھڑے کرتی ہے۔

اعداد و شمار کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف آرٹس گروپ بلکہ سائنس گروپ کے نتائج بھی تسلی بخش نہیں۔ کہیں پر 70 ہزار طلبہ میں سے صرف نصف کامیاب ہو سکے اور کہیں پر ایک لاکھ امیدواروں میں سے محض چالیس فیصد نے کامیابی حاصل کی۔ یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام کی بنیادیں کمزور ہیں اور طلبہ کو وہ رہنمائی و سہولت میسر نہیں جو انہیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے۔

اصل مسئلہ صرف طلبہ کی محنت نہ ہونا نہیں بلکہ تعلیمی نظام کی ناکامی ہے۔ رٹہ سسٹم، کمزور تدریسی طریقے، اساتذہ کی تربیت کا فقدان، نصاب کا بوجھ اور امتحانی پرچوں میں فہم و ادراک کی بجائے محض یاداشت کو پرکھنے کا رجحان — یہ سب عوامل اس ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ طلبہ کو صحیح معنوں میں کونسلنگ اور رہنمائی فراہم نہیں کی جاتی، جس سے وہ دباؤ اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور تعلیمی ادارے فوری طور پر نصاب اور امتحانی نظام میں بنیادی اصلاحات کریں۔ پرائمری اور مڈل سطح پر معیاری تعلیم کو یقینی بنایا جائے تاکہ نہم اور دہم میں پہنچ کر طلبہ بار بار ناکام نہ ہوں۔ اساتذہ کو جدید تربیت فراہم کی جائے، سوالیہ پرچے اس انداز سے ترتیب دیے جائیں جو تخلیقی صلاحیتوں کو نکھار سکیں، اور طلبہ کو رہنمائی دی جائے تاکہ وہ دباؤ کے بجائے اعتماد کے ساتھ امتحانات میں شریک ہوں۔

یہ بات سمجھنی ہوگی کہ یہ نتائج محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک سنگین انتباہ ہیں۔ اگر ہم نے فوری اصلاحات نہ کیں تو آنے والی نسلیں اسی کمزور تعلیمی نظام کا شکار رہیں گی۔ کامیابی کا تناسب بڑھانے کے لیے محض دعوے نہیں بلکہ عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.