کتھا۔۔۔
مجھے میرے استاد بھی چھیڑتے تھے۔ میں کزنز ،بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ اسلام آباد فوڈ سٹریٹ میں گیا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب یہ نئی نئی بنی تھی اور خاصی آباد تھی
مجھے میرے استاد بھی چھیڑتے تھے۔ میں کزنز ،بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ اسلام آباد فوڈ سٹریٹ میں گیا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب یہ نئی نئی بنی تھی اور خاصی آباد تھی
ٹیبل پہ جگہ ملنے کے لئے انتظار کرنا پڑتا تھا۔ہم بھی آٹھ دس تھے جگہ ہی کی تلاش میں تھے۔سامنے استاد محترم بیٹھے تھے۔مجھے دیکھتے ہی بولے ” چوھدری خودی ویچی آ فئیر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میں نے کہا ” نئیں سر جی ہالے نئیں ویچنڑیں؟؟؟؟؟پھر گویا ہوئے نوکری لبھی آ؟
میں نے کہا نہیں؟؟؟
پھر پوچھا خودی ویچنڑی آ؟؟؟
میں نے کہا نہیں۔
پھر بولے جے ویچنڑی ہوئی تے میرے دفتر چکر لالئیں؟؟
میں نے کہا” جے ویچی تے سارے جگ نوں دس کے ویچاں گا”۔۔۔
موہنڈے تے رکھ کے ویچاں گا۔۔۔
ٹھیلے تے رکھ کے ویچاں گا،آوازاں لا لا کے ویچاں گا۔
استاد محترم نے قہقہ لگایا۔۔۔۔پھر پوچھا کیا کررھے ہو آجکل ؟؟؟میں نے کہا دھکے کھا رھا ہوں ۔۔
ہنس کے گلے لگا کے بولے
"اللہ برکت پاوے”۔۔۔۔
پھر انہوں نے بھی قہقہہ لگایا اور میں نے بھی۔
کہ اس قہقہے کا جواب قہقے سے دینا ہی حقیقت پسندی تھی۔یونیورسٹی میں ان کو میری اور میری ان کو باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔اس کی کئی وجوہات تھیں۔میں سوال کرتا تھا اور بے تکے کرتا تھا۔ انہیں اچھی نہیں لگتی تھیں میری باتیں کیونکہ وہ سٹیریو ٹائپ نہیں ہوتی تھیں۔وہ کتابی نہیں تھیں۔وہ سوال تھے جو دل میں اٹھتے تھے جن کا جواب جاننے کے لئے ہم یونیورسٹی آئے تھے۔لیکن استاد صاحب بہت دور اندیش تھے وہ ہر بات کو نفع نقصان کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ ہر وقت ایک ہی بات کہتے تھے کہ یہ کام کرو تو نوکری مل جائے گی۔فلاں استاد کو اس لئے رکھا ہے کہ وہ فلاں ادارے میں اچھی پوسٹ پہ ہے اس کے ساتھ بنا کے رکھو یہ کہیں ایڈجسٹ کراسکتا ہے۔اور مجھے استاد محترم کے اس فلسفہ سے شدید اختلاف تھا۔میرے فولڈر پہ لکھا تھا
"خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر”۔
بہت وقت گزر گیا ہے۔خودی تو نہیں بیچی لیکن غریبی کی وجہ سے نام پیدا نہیں ہوسکا۔اس کا اتنا ملال نہیں ہے۔ملال تب ہوتا اگر خودی بیچ کے نام پیدا ہوجاتا پھر چس نہ آتی اور شاید جینے کا مزہ بھی نہ آتا۔ خود سے گہن بھی آتی۔اور یہ چھ فٹ کا دھڑ اپنی ہی نظروں میں گر بھی جاتا۔اور اللہ نہ کرے کبھی کوئی اپنی ہی نظروں میں گرجائے۔زندگی میں جینے کا مزہ ہی تب ہے اگر انسان خودی نہ بیچے اور جیسے تیسے بھی جئے بس اپنی دنیا جئے۔
قسم سے اماں کی پانی والی دال کا ٹئیسٹ کسی پنج ستارہ ہوٹل کے کھانوں سے کہیں زیادہ اچھا ہوتا ہے۔اللہ بھلا کرے کوئٹہ ہوٹل والوں کا ،ایک تو ہر جگہ اور دوسرا ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں اور پھر افورڈ ایبل بھی ہیں۔اور تو اور سینٹرل پارک والے بھی ماحول کے حساب سے جائز پیسے ہی لیتے ہیں۔کیا کرنا
سیکنڈ کپ پہ ایک کڑوی کافی کے ساتھ ایک براونی کھا کے۔نہ کرسی پہ ٹانگ رکھ کے بندہ بیٹھ سکتا اور نہ کھل کے قہقہ لگا سکتا۔ویسے حقیقت یہی ہے کہ خودی بیچ کے بندہ کچھ بھی کھالے وہ کیا کھایا۔مزہ تو تب ہے کہ بھوک لگی ہو اور آپ کی آنکھوں سے نظر نہ آئے۔
ہم نے کھائی ہے اماں کی دال اماں کے ہاتھ کا آلو شوربہ ۔ بس یہی کھا کے مزہ آیا۔سکون اپنی لائف جینے میں ہے۔کسی کی دیکھ کے بندہ بھلا کہاں سکون میں رہتا ہے۔زندگی میں کچھ تو اصول ہونے چاھیں۔۔۔
مانا کے مشکل راستہ ہے لیکن سیدھے راستے کی گرد میں گم ہونے سے بہت بہتر ہے۔ایک دوست بولا آو ایک تنظیم کی طرف سے پنج ستارہ ہوٹل ڈنر پہ جانا ہے۔معذرت کرلی۔بولا کیوں؟؟؟بتایا بھائی جہاں اپنی جیب سے اپنی ماں بہن بیٹیوں کو کھانا نہ کھلا سکوں،جہاں اپنے باپ بھائیوں اور بیٹوں کے ساتھ کھانے کی سکت نہ رکھتا ہوں وہاں کسی کی دعوت کھانے کا بھی دل نہیں کرتا۔تم جاو ہمارے لئے بہت ڈھابے کھلے ہوئے ہیں۔یہ غلط فلاسفی ہے یا صیحیح لیکن اپنی لائن یہی ہے۔سفید پوشی کا بھرم رکھنا سب کا حق ہے۔خود داری اور وضعداری ضروری چیزیں ہیں ان کے ساتھ جینا ہی اصل جینا ہے۔بس کچھ فیصلے بچپن میں ہی کرلئے تھے۔ان پہ قائم رہنا ہی ثابت قدمی ہے۔
اقبال نے کہا تھا۔اور بچپن میں ہی اس کی قبر پہ جاکر وعدہ کیا تھا اور دل پہ ہاتھ رکھ کے قسم کھائی تھی اور بلند آواز میں کہا تھا کہ "قسمیں اقبال زندگی وچ کج وی ہوگیا خودی نہیں ویچاں گا”۔
فاتحہ پڑھی اور پھر پھجے کے پائے کھا کر وہاں سے گھر کی راہ لی۔۔۔۔۔
اوکھا سوکھا وقت آیا۔مشکل حالات بھی آئے لیکن نہیں بیچی۔
بہت پہلے سنا تھا جالب بھی گھبرا گیا تھا۔غربت،بھوک افلاس اور تنگ دستی اپنی برداشت ہوجاتی ہے۔۔۔
لیکن بچوں کی نہیں ہوتی۔
شاید جالب اسی وجہ سے گھبرا گیا۔۔وہ بھی بچوں کی بھوک برداشت نہ کرسکا
اور پھٹ پڑا تھا۔پھر اس نے وہ لکھا کہ دل چیر کے رکھ دیا۔
کہنے لگا
"وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلاف عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
وہی دن رات ہیں اسیروں کے”
اور
پھر مرزا محمود سرحدی نے تو انتہاء ہی کردی کہنے لگا
"ہم نے اقبال کا کہا مانا اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رھے
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں ہم خودی کو بلند کرتے رھے۔۔۔”
لیکن ان کو پسند کرنے کے باوجود ہم نے ان کی طرح ہتھیار نہیں پھینکے ۔۔۔نہیں بیچی خودی اور نہیں کیا گلہ۔
آنکھوں سے بہت کچھ دیکھا۔رفعتیں پانے والوں کو بھی دیکھا لیکن دل نہیں للچایا،دل نہیں گھبرایا قدم نہیں لڑکھڑایا۔
وقت گزر جاتا ہے۔۔۔۔
یہی اس کی خوبی ہے اور یہی اس کی خامی۔۔۔۔۔
لیکن
سچ یہ ہے کہ خودی نہ بیچ کے جینا ہی جینا ہے۔۔۔۔
خودی کے بغیر بھی بھلا کوئی زندگی ہے!!!!!
یہ فیصلہ کررکھا ہے۔دل کا دماغ کے ساتھ وعدہ ہےکہ کچھ بھی ہوجائے نہیں بیچنی خودی ۔۔۔
جو سانسیں رھ گئی ہیں وہ بھی ایسے ہی جینا ہے۔اور کچھ نہ ہوسکا تو بچوں کو وصیت کرکے جانا ہے کہ قبر کے کتبہ پہ بھی لکھوا دینا خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر۔۔۔۔
جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔۔خون صاف رکھنا ہے۔خون صاف رھا تو سانسیں صاف ہوں گی۔ایک راحت ہوگی ایک سکون ہوگا ایک اطمینان ہوگا۔دماغ فریش رھے گا۔۔۔۔۔۔
روکھی سوکھی کھا کر عزت سے جینے کا جو مزہ ہے وہ کسی اور میں نہیں۔
یہ مزہ لے کے جینا ہے۔۔۔۔۔
بے شک کوئی چھیڑے یا مذاق اڑائے۔۔۔
اسی خودی کے ساتھ جینا ہے۔
انشاءاللہ