اسلام آباد ( انویسٹی گیٹیو گروپ ، قاسم منیر ) میں بی وائی سی کا دھرنا جس جوش و خروش سے شروع ہوا تھا، اسی رفتار سے ماند پڑ گیا۔ بارہویں روز تک پنڈال خالی ہونے لگا تو منتظمین نے ’خبر‘ بنانے کی آخری کوشش میں نقاب پوش نوجوانوں کو بلا لیا کچھ کیمرے سامنے آئے، چند ویڈیوز وائرل ہوئیں، مگر مطلوبہ ہلچل پیدا نہ ہو سکی۔ پولیس نے ماسک لگائے افراد کی نقل و حرکت کا کھوج لگایا تو دھاگہ سیدھا قائداعظم یونیورسٹی (کیو اے یو) کے ہاسٹلوں تک جا پہنچا۔ یہاں سے کہانی نے نیا موڑ لیا۔

جامعہ نے 9 جولائی سے 31 اگست تک سمسٹر بریک کا اعلان کیا اور واضح ہدایت دی کہ تمام طلبہ ہاسٹل خالی کریں تاکہ مرمت اور صفائی ہو سکے۔ متعدد لسانی کونسلوں کے “کامریڈز” نے نہ صرف ان احکامات کو نظر انداز کیا بلکہ ایسے افراد کو بھی ٹھہرا رکھا تھا جو یونیورسٹی کے طالب علم ہی نہیں تھے۔ انتظامیہ کی شکایت پر پولیس نے 29 جولائی کی صبح کارروائی کی، ہاسٹل نمبر 6، 8، 9 اور 11 سے پچپن سے ساٹھ طلبہ حراست میں لے لیے گئے جبکہ بی ایل اے کی وکیل ایمان مزاری کا دعویٰ ہے کہ زیرِ حراست نوجوانوں کی تعداد بہتر سے اوپر ہے ۔
تفتیش میں سامنے آیا کہ غیر قانونی مقیم طلبہ میں سے کئی، بی وائی سی دھرنے کی لاجسٹکس سنبھال رہے تھے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق انہی میں سے چند نے نقاب پوش گروپ بنا کر دھرنے کو دوبارہ توجہ دلانے کی کوشش کی۔ مزید چھان بین میں بعض گرفتارشده طلبہ کے موبائل فونز سے بی ایل اے کے میڈیا ونگ کی ہدایات اور خفیہ چیٹ گروپس بھی برآمد ہوئے یوں بی وائی سی، بی ایل اے اور کیمپس کے اندر موجود اس “غیر مرئی نیٹ ورک” کا باہم ربط واضح ہوتا گیا۔
طلبہ کی گرفتاری کے بعد بی ایل اے کی وکیل ایمان زینب مزاری فوراً پولس اسٹیشن پہنچیں، میڈیا سے گفتگو میں اسے “تعلیمی حق پر حملہ” قرار دیا اور ہاسٹل خالی کرنے کے حکم کو سیاسی انتقام سے تعبیر کیا ۔ سوشل میڈیا پر اُن کے حامیوں نے گرفتاریوں کو ’’ریاستی جبر‘‘ سے جوڑا، مگر مخالفین نے سوال اٹھایا کہ جب یونیورسٹی خود بند ہے تو ہاسٹل پر قابض رہنا کس قانون کے تحت جائز ہے؟
دھرنے کی ناکامی کے بعد نقاب پوش مداخلت بھی کوئی بڑا ایونٹ پیدا نہ کر سکی۔ پولیس کی بروقت گرفتاریوں اور ہاسٹل نیٹ ورک کے انہدام نے بی وائی سی کی مہم کو دھچکا پہنچایا۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین پہلے ہی شناختی کارڈ چیکنگ اور راستے بند ہونے پر منتشر ہو رہے تھے ۔ قانونی لڑائی اور آن لائن مہم کے باوجود، زمینی حقیقت یہی رہی کہ احتجاج کی حرارت قائم نہ رہ سکی اور بی وائی سی کی قیادت کو اگلا لائحۂ عمل سوچنا پڑا۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس جیسے تعلیمی مراکز میں غیر نصابی، بالخصوص شدت پسند سرگرمیوں کا جال کس طرح پھیلتا ہے۔ بی وائی سی کی سیاسی مہم، بی ایل اے کی مبینہ سرپرستی اور قانونی و میڈیا فرنٹ پر ایمان مزاری کی سرگرمیاں یہ سب مل کر ایک ہائبرڈ ماڈل بناتے ہیں جس کا مقصد ریاستی بیانیے کو چیلنج کرنا ہے۔ تاہم جب ادارے بروقت حرکت میں آئیں تو نقابوں کے پیچھے چھپی حقیقت زیادہ دیر ڈھکی نہیں رہتی۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا: ہاسٹل کی تلاشی سے لے کر گرفتار نقاب پوشوں تک، ہر قدم نے احتجاجی کہانی کو اُلٹ دیا اور یہ ثابت کیا کہ محض ہنگامہ آرائی اور میڈیا اسپن سے زمینی حقائق تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔
