سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا

0

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیاہے ۔

تفصیلات کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ   یہ تمام 80 لوگ پہلے مجلس وحدت المسلمین میں جا رہے تھے،  اگر یہ اس جماعت میں جاتے تو مخصوص نشستیں لے سکتے تھے،  مجلس وحدت المسلمین ایک نشست جیتی ہوئی تھی۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ کہا کہ کاش یہ آپ سے مشورہ کرتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ایم ڈبلیو ایم میں جاتے تو عوامی منشا کا مسئلہ نہ بنتا نہ یہ کیس آتا۔

پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب روسٹرم پر آئیں ۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ  آپ نے کوئی بات کہنی ہے تو کہہ لیں،  آپ نے سنی اتحاد میں شمولیت کیوں کی؟ پی ٹی آئی میں کیوں نہیں گئے؟  کنول شوزب نے کہا کہ ہمارا 24 دسمبر کو انتخابی نشان چھین لیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل کرنے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ مختصر فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا،مختصر حکمنامے کا انتظار کریں۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس صلاح الدین پنہور نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ، جسٹس صلاح الدین پنہور، حامد خان کے اٹھائے گئے اعتراضات پرالگ ہوئے۔ ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ آپ کا بینچ سے الگ ہونا قابل ستائش ہے۔ عدالت نے وکیل حامد خان کی سخت سرزنش کی۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ  یہ ستائش کی بات نہیں ہے، ایک پارٹی سے دو وکیل دلائل کے حقدار نہیں ہوتے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا پھر بھی آپ کو دلائل کا موقع دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کا حامد خان سے مکالمہ ہوا، جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ  کل آپ نے اس عدالت کو ڈی چوک بنایا،  کس نے آپ کو یہ حق دیا ہے؟ ۔

جسٹس مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ میں اعتراف کرتا ہوں ہم نے اس کیس میں اپنے اختیارات کو کھینچ کر وسیع کیا،  ہم اپنے دائرہ اختیار میں رہتے تو آج جو حالات ہیں ان کا سامنا نہ کر رہے ہوتے،  سنی اتحاد کونسل کو 13 ججز نے کہا آپ کا حق نہیں بنتا،  ہمارے سامنے دو فریق ہوں گے تو ہم ان دو میں فیصلہ کریں گے،  کیا 12رکنی بینچ اس کیس پر نظرثانی کر سکتا ہے؟

جسٹس مندوخیل کا کہناتھا کہ ہم کوشش کریں گے آج ہی اس کیس کا فیصلہ کریں،  مختصر حکمنامے سے متصادم تفصیلی فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا،  مختصرآرڈر میں ہم اتنا ہی کہتےہیں وجوہات بعد میں دیں گے،  شارٹ آرڈر تو بالکل ہی مختصر ہوتا ہے، اپیل اور نظرثانی میں فرق ہوتا ہے،  نظرثانی میں کوئی غلطی ہو تو اسے درست کیا جاتا ہے،  میں نے اگرغلطی کی ہوگی تو میں ہی اسے درست کروں گا،  میں کہہ سکتا ہوں ہاں یہ حقائق پہلے میرے سامنے نہیں تھے غلطی ہوگئی لیکن میں اپنے ساتھی ججز کا دیا گیا فیصلہ نظرثانی میں نہیں بدل سکتا،  دوسرے ججز کا فیصلہ مجھے پسند نہ ہو تو نظرثانی میں بدل نہیں سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہناتھا کہ ہم نے ایک پارٹی کو نہیں عوام کے حق کو دیکھ کر مکمل انصاف کیا، پی ٹی آئی نے کبھی بھی مخصوص نشستوں پر دعویٰ جتایا ہی نہیں تھا، نہ الیکشن کمیشن، نہ ہائیکورٹ نہ یہاں انہوں نے مخصوص نشستیں مانگیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.