ثناء یوسف کا قتل اور اجتماعی ذہنی پسماندگی ,شور نہیں شعور

قسط ایک سو اکیاون, ڈاکٹر زین اللہ خٹک

0

ثناء یوسف کا اندوہناک قتل محض ایک انفرادی سانحہ نہیں، بلکہ ہماری سماجی ساخت میں پیوست ایک گہری بیماری کا اظہار ہے.ایک ایسی بیماری جو عورت کی خودمختاری کو بغاوت، اور اس کی آواز کو گستاخی سمجھتی ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ ایک عورت، جو معاشرتی جبر کے خلاف کھڑی ہوئی، وحشیانہ طاقت کا نشانہ بن گئی۔ مگر جو چیز شاید اس قتل سے بھی زیادہ خوفناک ہے، وہ ہے ہمارے معاشرے کے بڑے طبقے کا ردعمل۔

سوشل میڈیا پر آنے والے تبصرے ، جو قاتل کے لیے ہمدردی اور مقتولہ کے کردار پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم صرف ریاستی یا عدالتی زوال کے شکار نہیں، بلکہ ایک گہری فکری اور اخلاقی گراوٹ میں بھی مبتلا ہیں۔ جب ایک زندہ اور باشعور عورت کو صرف اس لیے ختم کر دیا جائے کہ وہ خاموش رہنے پر آمادہ نہ تھی، اور پھر لوگ قاتل کی نفسیات کے بجائے مقتولہ کے لباس، لہجے یا خیالات پر بحث کریں تو یہ سوال جنم لیتا ہے کہ: ہم بطور قوم کس طرف جا رہے ہیں؟ کیا ہمارا اصل مسئلہ "جرم” ہے یا وہ ذہنیت جو اسے جواز عطا کرتی ہے؟ ثناء کی موت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ظلم کا اصل چہرہ کبھی صرف قاتل کا نہیں ہوتا ، بلکہ وہ سوچ بھی قاتل ہے جو اسے سماجی قبولیت دیتی ہے اور وہ خاموشی بھی جو اس جرم پر پردہ ڈالتی ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ ایک لڑکی قتل ہوئی ، سوال یہ ہے کہ ہم کس اخلاقی قبرستان میں رہ رہے ہیں؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.