پاکستان

حکومت کی خیبر پختونخوا کے ساتھ بے حسی، فاٹا کے نئے ضم شدہ اضلاع مسلسل نظرانداز

اسلام آباد(نیوزڈیسک)وفاقی حکومت خیبر پختونخوا اور نئے ضم شدہ اضلاع کے لوگوں کی آواز دبانے سمیت عوامی مطالبات اور حالت زار کے حوالے سے مسلسل مجرمانہ بے حسی کا مرتکب ہو رہی ہے ۔ وفاقی حکومت کے حالیہ فیصلے کے تحت خیبر پختونخوا میں 91 ترقیاتی منصوبوں کے خاتمے نے مساوی ترقی اور صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے عمل کو سنگین دھچکا پہنچے گا ۔

یہ منصوبے صوبے کے سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے انتہائی اہم تھے جو تعمیر و ترقی، صحت، تعلیم، اور توانائی پر مشتمل تھے۔ ان 91 منصوبوں میں سے کچھ 70 فیصد مکمل ہو چکے تھے، لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے ان منصوبوں کو روک دیا گیا۔ ان منصوبوں کی تفصیلات دو گھنٹے قبل 31 مئی کو سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) کے اجلاس میں بتائی گئیں۔ اس طرح کے اقدامات سے خطرناک نتائج برآمد ہونگے ۔ کیونکہ یہ علاقائی اختلافات کو گہرا کر سکتا ہے اور قومی ترقی کے اصولوں کو کمزور کر سکتا ہے۔

وفاقی حکومت کی عدم توجہ اور سیکورٹی صورتحال کی وجہ سےخیبر پختونخوا کو پہلے ہی سے چیلنجز کا سامنا ہے، اس فیصلے سے صوبہ مزید مشکلات کا شکار ہوگا ۔ یہ منصوبے صرف مالی منصوبے نہیں تھے بلکہ ان منصوبوں کے نتیجے میں لوگوں کی معیار زندگیاں بہتر ہونی تھی ۔ منصوبوں کی منسوخی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) ایپیکس کمیٹی کے 3 جنوری کے اجلاس کے فیصلے کی بھی مخالفت کرتی ہے جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ تمام جاری منصوبے مکمل کئے جائیں گے تاکہ پہلے سے کی گئی سرمایہ کاری کو بچایا جا سکے۔ اس طرح کے اقدامات سے وفاقی حکومت کے مشترکہ ترقی اور علاقائی مساوات کے عزم پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔

یہ فیصلہ خیبر پختونخوا کو مزید پیچھے دھکیلنے کے مترادف ہے، ممکنہ طور پر صوبوں کے درمیان ترقیاتی خلا کو وسیع کرنے اور سماجی و اقتصادی ناانصافی کو بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔

وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کو نیٹ ہائیڈل منافع میں 111 ارب روپے واجب الادا ہے جس میں 78 ارب روپے کے بقایاجات بھی شامل ہیں۔ ایسے ادائیگیوں کو مؤخر کرنے سے صوبہ مالی مشکلات میں مبتلا ہو چکا ہے۔

ضم شدہ اضلاع کے عوام سے این ایف سی ایوارڈ میں 3 فیصد حصہ اور ہر سال 100 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ کا وعدہ کیا گیا تھا۔ تاہم اب تک، ایسے بڑے وعدوں کے مقابلے میں، گزشتہ 5 سالوں میں صرف 163 ارب روپے مختص کئے گئے اور صرف 103 ارب روپے جاری کئے گئے۔ اے ڈی پی اور اے آئی پی کے مشترکہ طور پر وفاقی حکومت نے گزشتہ 5 سالوں کے لئے مختص 286 ارب کے مقابلے میں صرف 186 ارب روپے جاری کئے۔ عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لئے وعدہ شدہ 17 ارب روپے سالانہ الاٹمنٹ کو صفر کر دیا گیا، جس سے قانون و انتظامی خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ وفاقی حکومت پر موجودہ مالی سال کے لئے ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی پورٹ فولیو کے لئے 40 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت سابق قبائلی علاقوں کے زبانی جمع خرچ کرتی ہے جنہوں نے پاکستان کی دفاع اور سلامتی کے لئے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔

چمن اور غلام خان میں دھرنوں کے حوالے سے ریاستی حکمت عملی قبائلی علاقوں کے مسائل کے حوالے سے حکومتی بے حسی کی عکاسی کرتی ہے۔ چمن میں احتجاج کرنے والے اپنے آئینی اور جمہوری حق کو استعمال کرتے ہوئے مسلسل اور پرامن احتجاج کر رہے ہیں تاکہ اپنے جائز مطالبات کو پورا کیا جا سکے۔ ریاستی مشینری کے ذریعے کریک ڈاؤن نے لوگوں کے ریاستی اداروں پر اعتماد کو مزید کمزور کیا ہے ۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے احتجاج کرنے والے شہریوں تک پہنچے اور ان کے مسائل کو جمہوری طریقے سے حل کرے۔ حکومت کو ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینی چاہئے اور چمن اور غلام خان کے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئے تاکہ اس ڈیڈلاک کا حل تلاش کیا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button