اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے اتوار کو غزہ میں امن کے لیے اسرائیل کی وابستگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن معاہدے کی حمایت کرنے والے مسلم ممالک کو اپنی پوزیشن پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے کیونکہ علاقے میں نازک جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اگرچہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 9 اکتوبر کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا، اسرائیل نے علاقے پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے اور امن کے لیے طویل مدتی منصوبے پر بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ میں کہا کہ جنگ بندی معاہدے پر ایک طرفہ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے اور اسرائیلی افواج ’معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں فلسطینی، بشمول بچے، مارے جا رہے ہیں‘۔
وزیر دفاع نے کہا کہ شرم الشیخ میں دستخط کیے گئے اس معاہدے کا مقصد خطے میں استحکام لانا تھا، لیکن اسرائیل کے اقدامات نے اس کی وابستگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم ممالک جو اس معاہدے کی حمایت کر چکے ہیں، جن میں ترکی، مصر اور قطر شامل ہیں، کو جاری تشدد کے پیش نظر اپنی پوزیشن پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
اہم ڈیڈ لائن گزر گئی، چیف آف ڈیفنس فورسز کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا
خواجہ آصف نے نشاندہی کی کہ ترک صدر رجب طیب اردوان پہلے ہی تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں اور کہا ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کو فلسطینی مسئلے کے حتمی حل کے طور پر نہیں سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 10 اکتوبر سے اب تک کم از کم 352 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ تصادم کے آغاز سے غزہ میں 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کا نسل کشی کا عمل ختم نہیں ہوا، اور بین الاقوامی برادری، خصوصاً مغربی حکومتوں، کو اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کی پابندی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔
واضح رہے کہ امریکی ثالثی سے طے پانے والے غزہ امن معاہدے کی بنیاد بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کے قیام پر ہے، جو زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک کے فوجیوں پر مشتمل ہوگی۔ تاہم وہ ممالک جو پہلے اس منصوبے کی حمایت کر چکے تھے، اب تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
گزشتہ روز ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان غزہ امن فورس میں فوجی تعینات کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن حماس کو غیر مسلح کرنے میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ پاکستان کا کام نہیں، بلکہ فلسطینی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے، ہمارا کام امن قائم رکھنا ہے، امن نافذ کرنا نہیں۔