اگر کسی ملک کے عام شہری کی ایک پلیٹ دال پر بھی ٹیکس لگ جائے، اور مزدور دن بھر کی محنت کے بعد کھانے کے بجائے صرف “پیٹ پوجا” کرے تو سمجھ لیجیے اس ریاست کے حکمران عوام کے نہیں، اپنی عیاشیوں کے وکیل ہیں۔
کہتے ہیں ملک ماں کے جیسا ہوتا ہے۔ ماں بھوکی رہ کر بھی اپنے بچوں کو کھلاتی ہے، اپنا خون پلا کر بھی ان کے چہروں پر رونق لاتی ہے۔ مگر یہ کیسا ملک ہے جہاں ریاست ماں نہیں، سوتیلی ماں کی روح بن گئی ہے؟ یہاں حکومت اپنے ہی عوام کو نوچتی ہے، اور حکمران ایسے بیٹھے ہیں جیسے خونخوار درندے جبڑوں کے ساتھ شکار پر جھپٹتے ہیں۔
آج ذرا اسلام آباد کے کسی عام ڈھابے پر چلتے ہیں۔ لکڑی کی بینچیں، ایک پرانا سا پنکھا، دیوار پر میلا کچیلا کیلنڈر، اور کچن سے اٹھتی بھاپ۔ آپ دال منگواتے ہیں۔ ویٹر ایک پلیٹ میں انڈیل دیتا ہے۔ بل آتا ہے: دال 250 روپے، اس پر 15 فی صد جی ایس ٹی یعنی 37.5 روپے، پھر پی او ایس کا ایک روپیہ۔ کل ملا کے 289 روپے۔ لیکن چونکہ سکے ناپید ہیں، وہ سیدھا 300 روپے ہی مانگ لیتا ہے۔
سوچیے، مزدور جو دن بھر ریڑھی کھینچ کر یا اینٹیں ڈھو کر شام کو بیٹھتا ہے، وہ محض ایک پلیٹ دال کے لیے بھی تین سو روپے نکالتا ہے۔ یہی دال جو کبھی "غریب کی ماں” کہلاتی تھی، آج امیروں کی معشوقہ لگتی ہے۔
—
ٹیکس کا جادو
یہ ٹیکس بھی عجیب جادو ہے۔ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ "ٹیکس نیٹ” بڑھا دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ عوام کی جیب پر ڈاکے کے نئے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ ہوٹل والا اپنی مرضی سے قیمت بڑھا کر ٹیکس کے نام پر الگ بوجھ ڈالتا ہے، اور حکومت وہی پیسہ شاہی زندگیوں پر اڑاتی ہے۔
بجلی کا بل دیکھیے۔ یونٹ ریٹ کچھ اور، مگر بل دوگنا۔ فیول ایڈجسٹمنٹ الگ، سرچارج الگ، ٹی وی فیس الگ، پھر جی ایس ٹی بھی۔ چالیس ہزار روپے کمانے والا خاندان آدھی تنخواہ صرف بلوں میں دے دیتا ہے۔
پٹرول کی قیمت 269.85 روپے فی لٹر ہے۔ کبھی عالمی منڈی کا بہانہ، کبھی معیشت کی مجبوری۔ جب نرخ بڑھتے ہیں تو "لاچارگی”، جب کم ہوتے ہیں تو "قومی ضرورت”۔ عوام ہر حال میں جوتے کھانے کے لیے ہی ہیں۔
—
ڈھابوں کا حال
اسلام آباد کے جی-9 مرکز میں جائیں۔ ایک پلیٹ سبزی 250 روپے، آلو گوشت 400 روپے، دہی 150 روپے۔ بل پر ٹیکس لگائیں تو مزدور کے منہ سے نکلتا ہے: "بھائی ہم نے کھانا کھایا ہے یا فائیو اسٹار ہوٹل میں چائے پی ہے؟”
چنے کی پلیٹ 200 روپے، ٹیکس لگا کر 230۔ لیکن چونکہ 230 کا نوٹ نہیں، ہوٹل والا 250 ہی پکڑ لیتا ہے۔ عوام احتجاج کریں بھی تو کس کے سامنے؟ حکومت کی چابی تو پہلے ہی ہوٹل والوں کے ہاتھ میں تھما دی گئی ہے۔
—
عوامی المیہ
کل ایک مزدور سے پوچھا: "آج دوپہر کو کیا کھایا؟”
وہ ہنس کر بولا: "کھایا؟ ہم اب پیٹ نہیں بھرتے، وقت گزارتے ہیں۔ کبھی روٹی کے ساتھ پانی، کبھی چائے کے ساتھ خالی نان۔ یہی ہمارا لنگر ہے۔”
یہ جواب دراصل بائیس کروڑ عوام کی زبان ہے۔ پاکستان ایک تجربہ گاہ ہے جہاں روز ٹیکسوں کے نئے تجربے ہوتے ہیں۔ کبھی جی ایس ٹی، کبھی ودہولڈنگ، کبھی ایڈوانس ٹیکس۔ عوام کو ایسا قیدی بنا دیا گیا ہے جس کی جیبوں پر چھری چلتی رہتی ہے۔
—
حکمرانوں کی عیاشیاں
اب ذرا حکمرانوں کی زندگی دیکھئے۔ دبئی کے محلات، لندن کے فلیٹس، سوئٹزرلینڈ کے اکاؤنٹس۔ ان کی بیگمات لاکھوں کے بیگ، کروڑوں کے زیورات پہنتی ہیں۔ ان کے بچے ہاورڈ اور آکسفورڈ میں پڑھتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں لاکھوں کا پٹرول پیتی ہیں، لیکن اس پر کبھی ٹیکس نہیں۔ وہی عوام جو 269.85 روپے فی لٹر پٹرول خریدتے ہیں، ان کے شاہی قافلے عوام کے خون سے مفت چلتے ہیں۔
یہ ملک "اشرافیہ کی عیاشی گاہ” بن گیا ہے۔ جہاں مزدور دال کے لیے ترس رہا ہے اور حکمران لاکھوں کی محفلوں میں ڈکار تک نہیں لیتے۔
—
طنزیہ حقیقت
حکومت کہتی ہے: "ہم نے مہنگائی پر قابو پا لیا ہے۔”
جی ہاں! قابو پا لیا ہے عوام پر۔ مہنگائی تو آزاد شیر ہے، عوام وہ بکری ہیں جو رسی میں بندھی ہے۔ شیر آزاد پھر رہا ہے، بکری چیخ رہی ہے، اور حکمران تالیاں بجا رہے ہیں کہ "دیکھو کتنا سکون ہے۔”
یہی حال ٹیکسوں کا ہے۔ بڑے صنعتکار اور جاگیردار محفوظ ہیں۔ چائے والے، سبزی والے اور مزدور پر بوجھ۔ لگتا ہے اس ملک میں عوام صرف "ٹیکس دینے کی مشین” ہیں۔
—
انجام
سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک؟ ایک عام پاکستانی جب بیوی بچوں کو دیکھتا ہے تو سوچتا ہے: "انہیں کیا دوں؟ روٹی یا خواب؟”
کسی نے کہا تھا: "جب ریاست ماں کے بجائے سود خور بن جائے تو رعایا کی قسمت میں صرف آنسو رہ جاتے ہیں۔”
نون لیگ کی موجودہ حکومت نے عوام کو آنسو، آہیں اور چیخیں دی ہیں۔ دال کی پلیٹ ٹیکس کے نیچے دب گئی ہے۔ روٹی اور نان خواب بن گئے ہیں۔ پٹرول، بجلی اور گیس نے کمر توڑ دی ہے۔
لیکن حکمرانوں کے محلات، فیکٹریاں، شادی ہال اور قافلے آج بھی جگمگا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا یہ عیاشیاں ہمیشہ قائم رہ سکتی ہیں؟
یہ ملک "اسلامی جمہوریہ پاکستان” ہے یا "اشرافیہ جمہوریہ پاکستان”؟ فیصلہ وقت کرے گا، لیکن تاریخ یہ ضرور لکھے گی کہ جب عوام چیخ رہے تھے، حکمران ہنس رہے تھے۔