لداخ میں بھارت کا کرفیو

(طارق احسان غوری)

0

 

25 ستمبر 2025 کو بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ایک اور سیاہ باب رقم ہوا۔ لداخ کے اضلاع لیہہ اور کرگل میں عوام اپنے جائز اور آئینی حقوق کے لیے پرامن احتجاج پر نکلے، مگر بھارتی انتظامیہ نے ان مظاہروں کو طاقت کے زور پر کچلنے کے لیے کرفیو نافذ کر دیا اور نہتے شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے کم از کم 6 افراد کی جان لے لی جبکہ ایک سو سے زائد کو زخمی کر دیا۔ پچاس سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا اور پورے خطے کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ مناظر ایک بار پھر عالمی برادری کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ بھارت کی نام نہاد جمہوریت درحقیقت ایک جبرواستبداد کا نظام ہے جو اپنی عوام کو بھی بنیادی حقوق دینے کو تیار نہیں۔

احتجاج اور ریاستی جبر
لیہہ میں ہونے والا احتجاج محض کوئی وقتی اشتعال نہیں تھا۔ یہ دراصل برسوں کی محرومیوں اور حق تلفیوں کا شاخسانہ تھا۔ لوگ ریاستی درجے کی بحالی، چھٹے شیڈول کے نفاذ، مقامی شناخت اور زمین کے تحفظ جیسے بنیادی مطالبات کے لیے نکلے تھے۔ مگر بھارتی فورسز نے پرامن نعروں کا جواب گولیوں سے دیا۔ جب لاشیں گریں، تو غم و غصہ بڑھ گیا اور مشتعل مظاہرین نے بی جے پی کا دفتر اور پولیس کی گاڑیاں نذرِ آتش کر دیں۔ اس کے بعد انتظامیہ نے کرفیو اور مزید پابندیوں کا سہارا لیا، گویا ظلم پر پردہ ڈالنے کے لیے پھر سے ظلم کا ہی سہارا لیا گیا۔

مذہبی و سیاسی قیادت پر قدغن
بھارت کی بوکھلاہٹ اس بات سے بھی عیاں ہے کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق کو ایک بار پھر گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ ان کے گھر کے اطراف خاردار تاریں لگا دی گئیں تاکہ متحدہ مجلس علماء کا اجلاس نہ ہو سکے۔ میر واعظ نے بجا طور پر اس اقدام کو مضحکہ خیز اور غیر آئینی قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک جمہوری ریاست اپنے شہریوں کو مذہبی اجتماعات اور دینی مشاورت سے بھی روک سکتی ہے؟ یہ وہ مقام ہے جہاں بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوتا ہے، کیونکہ وہ نہ سیاسی آزادی دیتا ہے، نہ مذہبی آزادی اور نہ معاشرتی آزادی۔

5 اگست 2019 کا غیر آئینی فیصلہ اور اس کے نتائج
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ اس کے پس منظر میں 5 اگست 2019 کا وہ متنازع فیصلہ موجود ہے جب نئی دہلی نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے زبردستی دو حصوں میں تقسیم کیا اور براہِ راست مرکز کے ماتحت کر دیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف کشمیری عوام کی خواہشات کے خلاف تھا بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی بھی تھا۔ اس دن کے بعد سے کشمیری اور لداخی عوام مسلسل احتجاج اور مزاحمت کی راہ پر ہیں، کیونکہ وہ اپنی شناخت، زمین اور وسائل کے تحفظ کے لیے میدانِ عمل میں ہیں۔ آج لداخ کے مظاہرے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔

انسانی المیہ اور عالمی خاموشی
ایک سوال بار بار اٹھتا ہے کہ آخر عالمی برادری کب جاگے گی؟ جب فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں تو دنیا بھر میں آواز بلند ہوتی ہے۔ جب یوکرین پر جنگ کے بادل چھاتے ہیں تو پوری دنیا متحرک ہو جاتی ہے۔ لیکن جب کشمیر یا لداخ میں نہتے شہری گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں تو عالمی ضمیر کیوں خاموش ہو جاتا ہے؟ کیا کشمیریوں کا خون سستا ہے؟ کیا ان کے دکھ دنیا کو نظر نہیں آتے؟

ماحولیاتی کارکن کی گواہی
لداخ کے معروف ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک نے کہا کہ نوجوان حکومت کے رویے سے انتہائی مایوس ہیں اور وہ مجبوراً سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ یہ بیان اس حقیقت کی کھلی عکاسی ہے کہ بھارت اپنی ہی پالیسیوں سے محکوم عوام کو بغاوت پر مجبور کر رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک ریاست اپنے شہریوں کو اگر روزگار، تعلیم، شناخت اور عزت نہیں دے سکتی تو پھر اس کے پاس اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز کیا ہے؟

میڈیا پر قدغن
بھارت نہ صرف زمین پر بلکہ اطلاعات کی دنیا میں بھی جبر کا سہارا لیتا ہے۔ کشمیر کے حالات پر آزاد میڈیا کی رسائی محدود ہے، صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور سچ بولنے کی سزا جیل یا مقدمات کی شکل میں ملتی ہے۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کو چھپانے کے لیے ہے کہ وادی اور لداخ میں عوام کا اعتماد نئی دہلی پر ختم ہو چکا ہے۔

عالمی برادری کی ذمہ داری
اب وقت آ گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کے خلاف سخت موقف اپنائیں۔ محض بیانات کافی نہیں۔ بھارت پر دباؤ ڈالا جائے کہ:
کرفیو اور پابندیوں کو فی الفور ختم کرے۔
گرفتار مظاہرین کو رہا کرے۔
لداخ اور کشمیر کے عوام کو ان کے آئینی، سیاسی اور معاشرتی حقوق واپس دے۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا مستقل اور منصفانہ حل نکالا جائے۔

امن کے لیے انصاف ضروری ہے
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ طاقت کا استعمال وقتی سکوت تو لا سکتا ہے لیکن دیرپا امن صرف انصاف سے قائم ہو سکتا ہے۔ کشمیری اور لداخی عوام اپنے حقِ خودارادیت سے کم کسی چیز پر تیار نہیں۔ وہ گولیوں اور جیلوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

نتیجہ
کشمیر اور لداخ کی موجودہ صورتحال محض ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمی امن اور انسانی وقار کا سوال ہے۔ اگر دنیا آج بھی خاموش رہی تو یہ خاموشی کل بڑے بحرانوں کو جنم دے گی۔ بھارت کو یہ ماننا ہوگا کہ کشمیری اور لداخی عوام کو غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ طاقت سے جیتنے والا صرف وقتی فتح پاتا ہے، اصل کامیابی انصاف اور آزادی کی فراہمی میں ہے۔دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ مظلوم عوام کے ساتھ کھڑی ہے یا ایک ایسے جابر ریاستی نظام کے ساتھ جو جبرا کشمیری عوام کو خون میں نہلا رہا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.