sui northern 1

عنوان: نچوڑی گئی عوام، بھرا گیا اشرافیہ کا پیٹ

تحریر: آصی

0
Social Wallet protection 2

 

sui northern 2

پاکستانی سیاست کی سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں مگر عوام کی حالت نہیں بدلتی۔ نعرے نئے ہوتے ہیں، وعدے رنگین، اور دعوے پرکشش لگتے ہیں، مگر انجام ہمیشہ ایک جیسا نکلتا ہے — عوام کے کندھوں پر قرضوں کا بوجھ، بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافہ، پیٹرول کی قیمتوں میں جنون اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کا فقدان۔ 2022 سے 2025 تک کا عرصہ بھی اسی تسلسل کی ایک اور کڑی ہے۔

اس مدت میں عوام سے بجلی، پانی، گیس اور پیٹرول کی مد میں اربوں ڈالر نچوڑے گئے۔ یہ وہ رقم تھی جس سے قرضے کم ہو سکتے تھے، تعلیم اور صحت پر سرمایہ کاری کی جا سکتی تھی، اور عوام کو سہولتیں دی جا سکتی تھیں۔ لیکن افسوس! یہ ساری دولت مخصوص طبقوں کی جیبوں میں جا پہنچی۔ نون لیگ نے اپنی روایت نبھائی، پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنے ڈیرے مزید مضبوط کیے، پی ٹی آئی کے کچھ لوگ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے، اور پٹواری، پپلیے اور بیوروکریسی پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گئے۔

محسن نقوی کے عبوری دور میں میڈیا پر سرکاری اشتہارات کی ایسی بارش ہوئی کہ بڑے چینلز کی تجوریاں بھر گئیں۔ وہی چینلز جو عوامی دکھوں پر لمبے لمبے پروگرام کرتے ہیں، انہی کے بریک میں حکومت کے اربوں روپے کے اشتہارات چلتے رہے۔ جیو، 24 اور دیگر بڑے میڈیا ہاؤسز نے ان بجٹوں سے اپنے کاروبار چمکائے جبکہ عوام سوچتی رہی کہ اگر یہی پیسہ گیس یا بجلی پر سبسڈی میں لگتا تو زندگی کچھ آسان ہو جاتی۔

توانائی کا شعبہ عوام کے لیے مستقل عذاب بنا رہا۔ آئی پی پیز کے capacity payments وہ زہر ہیں جو ہر حکومت نے عوام کو پلایا۔ عوام چاہے بجلی استعمال کرے یا نہ کرے، حکومت ان کمپنیوں کو اربوں روپے دینے کی پابند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ماہ بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ اور سرچارجز عوام کے خون پسینے کو نچوڑتے رہے۔ وزراء اور حکومتیں بدلیں، لیکن ان معاہدوں کو چیلنج کرنے یا درست کرنے کی ہمت کسی نے نہ کی۔

ایل این جی کے سودے بھی اسی کہانی کا حصہ ہیں۔ مہنگے کارگو، ملتوی سپلائیاں اور کمیشن کی سیاست نے عوام کے حصے کی روٹی چھین لی۔ حکومت نے دوبارہ مذاکرات کی بات کی، مگر سب کچھ محض کاغذی وعدے ثابت ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیٹرول اور گیس کی قیمتوں نے عام آدمی کی کمر توڑ دی، مزدور سے لے کر دکاندار تک سب معاشی دباؤ کے شکنجے میں جکڑ گئے۔

ٹھیکیداری نظام کی کہانیاں بھی عبرت ناک ہیں۔ کوہستان اسکینڈل جیسی مثالیں سامنے آئیں جہاں اربوں روپے کے گھپلے پکڑے گئے۔ نیب اور عدالتوں نے گرفتاریوں کا شور تو مچایا، مگر نظام ویسا ہی رہا۔ ٹھیکیدار، بیوروکریٹ اور سیاست دان مل کر لوٹ مار کے نئے جال بنتے رہے، اور عوام کا حصہ ہمیشہ کاغذوں میں دفن رہا۔

اس کھیل میں قومی ادارے بھی مکمل طور پر لاتعلق نہیں۔ کچھ مخصوص افراد، جو طاقتور عہدوں پر فائز رہے یا ریٹائرمنٹ کے بعد پراپرٹی اور ہاؤسنگ منصوبوں میں کود پڑے، انہوں نے بھی اپنی تجوریاں بھریں۔ زمینوں کے سودے اور کارپوریٹ ڈیلز عوامی مفاد سے بالکل لاتعلق رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مخصوص افراد کے کردار پر سوالیہ نشان ہیں اور شفاف تحقیقات وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام کو مسلسل نچوڑا جا رہا ہے۔ ایک طرف سیاست دان ہیں جو وعدوں اور نعروں کی تجارت کرتے ہیں، دوسری طرف بیوروکریٹ اور ٹھیکیدار ہیں جو عوامی خزانے کو لوٹتے ہیں، اور تیسری طرف میڈیا ہے جو اربوں کے اشتہارات کھا کر بھی عوام کی اصل آواز دبائے رکھتا ہے۔ ان سب کے بیچ میں پس رہا ہے وہ عام پاکستانی، جس کی تنخواہ مہنگائی کے سامنے دم توڑ دیتی ہے، جس کا بچہ فیس نہ بھرنے پر اسکول سے نکال دیا جاتا ہے، اور جس کی ماں دوائی نہ ملنے پر اسپتال کے دروازے پر دم توڑ دیتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ کھیل کب تک چلے گا؟ کب تک مگرمچھ اپنے پیٹ بھرتے رہیں گے اور عوام کے بچے بھوک سے بلکتے رہیں گے؟ اگر آج احتساب نہ ہوا، اگر آج اس گھناؤنے نظام کو نہ توڑا گیا، تو کل یہ ملک قرضوں، بلوں اور بھوک کے قبرستان میں تبدیل ہو جائے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ عوام جاگیں، سوال پوچھیں اور جواب مانگیں، ورنہ اشرافیہ کا یہ نچوڑتا ہوا کھیل کبھی ختم نہیں ہوگا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.