برطانیہ بھی کیا یاد کرے گا کہ کس کو اپنے ہاں مہمان بنا ڈالا ہے۔ امریکی سیاست کا یہ طلسماتی کردار، ڈونلڈ ٹرمپ، جہاں جاتا ہے وہاں سفارت کاری کے بجائے تماشا ضرور لگا دیتا ہے۔ تازہ واردات لندن میں ہوئی جہاں شاہ چارلس کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات نے تاجِ برطانیہ کے پروٹوکول کو ریزہ ریزہ کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ شاہی دربار میں ہر قدم ناپ تول کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔
بادشاہ کے آگے چلنا سخت منع، گارڈ سے بات کرنا پروٹوکول شکنی، اور بادشاہ کے ساتھ رفتار ملانا لازمی۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ صاحب نے یہ سب کتابیں شاید کبھی کھول کر نہ دیکھی تھیں۔ وہ گارڈ کے ساتھ یوں گپ شپ کرنے لگے جیسے کسی ریستوران کے ویٹر سے بات کر رہے ہوں، اور بیچارہ شاہ چارلس ان کے پیچھے ایسے چل رہا تھا جیسے اسکول کا ہیڈماسٹر شرارتی طالب علم کے پیچھے مارک شیٹ تھامے پھرتا ہو۔
برطانیہ کی ہزار سالہ تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ بادشاہ اپنی ہی سرزمین پر "سیکنڈ لائن” میں نظر آیا۔ پروٹوکول کے محافظ بیچارے کاغذ قلم لیے سوچتے رہ گئے کہ اس واقعے کو کس خانہ میں درج کریں "غلطی” یا "بے عزتی”؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی میڈیا نے اس معاملے کو بڑے تحمل سے بیان کیا۔ لیکن اندرونِ خانہ سب جانتے ہیں کہ ٹرمپ نے شاہی خاندان کو اپنی مشہورِ زمانہ "بزنس اسٹائل” ڈیلنگ کا مزہ چکھا دیا ہے: یعنی "میں ہوں اور باقی سب پیچھے”۔
یہ واقعہ محض ایک مذاق نہیں بلکہ اس بات کی عکاسی ہے کہ امریکی سیاست کس حد تک غیر روایتی انداز اختیار کر چکی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران، جب ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے آتے ہیں تو انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ شخص صرف سیاستدان نہیں، بلکہ "پروٹوکول شکن فیکٹری” ہے۔
آخر میں بس اتنا کہہ دینا کافی ہے:
برطانیہ اپنی تاریخ میں اس دن کو یاد رکھے گا جب شاہی تاج کے آگے ٹرمپ کا بال سیدھا ہوا۔