قدرت کا غصہ یا انسانی غفلت؟

تحریر: آصف اقبال

0

 

 

حالیہ مون سون بارشوں نے پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت، چین، انڈونیشیا اور جاپان جیسے ممالک کو ایک بار پھر شدید سیلابوں سے دوچار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ محض قدرت کا غصہ ہے یا ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ؟ حقیقت یہ ہے کہ دونوں عوامل اس المیے میں شامل ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی نے موسموں کو غیر متوقع اور شدید کر دیا ہے۔ کبھی بارش نایاب ہو جاتی ہے اور کبھی چند دنوں میں مہینوں جتنی بارش ہو جاتی ہے۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور سمندری سطح میں اضافے نے صورتحال کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی غفلت نے بھی تباہی کو دوچند کیا ہے۔ جنگلات کی کٹائی، شہروں میں تجاوزات، نالوں پر قبضے اور غیر منصوبہ بندی تعمیرات نے نکاسیٔ آب کے نظام کو برباد کر دیا ہے، جس سے معمولی بارش بھی آفت میں بدل جاتی ہے۔

پاکستان خصوصاً پنجاب اس وقت شدید چیلنجز سے دوچار ہے۔ ہزاروں دیہات زیرِ آب آ گئے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں اور ہزاروں خاندان بے گھر ہو کر سماجی مسائل کا شکار ہیں۔ کسان معاشی بحران سے دوچار ہیں اور ملک خوراک کی کمی کے خطرے سے دوچار ہے۔ سیلابی پانی نے سڑکوں، پلوں اور بجلی کے نظام کو نقصان پہنچایا، جب کہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔ کھڑے پانی کے باعث ڈینگی اور ملیریا جیسی وباؤں کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔

وفاقی و صوبائی حکومتوں نے فوری اقدامات کرتے ہوئے فوج، ریسکیو 1122 اور پی ڈی ایم اے کو متحرک کیا۔ متاثرین کی بحالی کے لیے کیمپ قائم ہوئے اور امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر یہ سب وقتی ریلیف ہے، مستقل حل ہرگز نہیں۔ ضرورت ہے کہ مضبوط حفاظتی بند تعمیر کیے جائیں، جدید ڈرینیج سسٹم نصب ہوں، تجاوزات ختم کی جائیں اور کمیونٹی لیول پر تربیتی پروگرام شروع کیے جائیں۔

یہ مسئلہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ عالمی ہے۔ کاربن اخراج میں کمی اور صاف توانائی کے فروغ کے لیے دنیا کو مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ ورنہ مستقبل میں بارشوں کی شدت اور دریاؤں کا پانی مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔

فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے: یا تو ہم سیلاب کو تقدیر سمجھ کر برداشت کرتے رہیں گے یا عقل و تدبیر سے اس کا مقابلہ کریں گے۔ بصورت دیگر پنجاب کو معاشی اور سماجی بحرانوں کا سامنا بڑھتا ہی جائے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.