نئے صوبے ،فائدے اور نقصانات

تحریر: اصف اقبال

0

پاکستان میں نئے صوبے بنانے کی بحث کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ کبھی یہ مطالبہ جنوبی پنجاب سے اٹھتا ہے، کبھی کراچی اور کبھی ہزارہ ڈویژن سے۔ عوامی سطح پر اس کے کئی فوائد گنوائے جاتے ہیں، مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا پاکستان جیسے ملک میں، جہاں تقریباً تمام صوبے بین الاقوامی سرحدوں سے جڑے ہوئے ہیں، نئے صوبوں کا قیام قومی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے؟

ہمارا ملک چاروں جانب حساس بارڈرز سے گھرا ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سرحدیں افغانستان و ایران سے ملتی ہیں، سندھ اور پنجاب بھارت کے ساتھ جبکہ گلگت بلتستان چین اور بھارت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اگر ان خطوں کو مزید چھوٹے صوبوں میں تقسیم کیا جائے تو چند بڑے خدشات سامنے آتے ہیں۔

قومی سلامتی پر دباؤ

بارڈر کے قریب چھوٹے صوبے زیادہ حساس ہوں گے۔ دشمن ممالک لسانی اور مقامی محرومی کو ہوا دے کر علیحدگی پسند تحریکوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس خطرے کو ہر وقت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

قومی یکجہتی میں کمزوری

جب ان علاقوں کو الگ صوبائی شناخت ملے گی تو وہاں "علاقائیت” کو فروغ ملنے کا امکان بڑھے گا۔ اس سے قومی سوچ کے بجائے مقامی سوچ حاوی ہونے کا اندیشہ ہے۔

خارجہ پالیسی اور دفاعی معاملات

سرحدی امور ہمیشہ وفاقی سطح پر طے ہوتے ہیں، لیکن اگر صوبوں کو زیادہ خودمختاری مل گئی تو یہ حساس مسائل صوبائی سیاست کی نذر ہو سکتے ہیں۔

وسائل اور اسمگلنگ کے خدشات

بارڈر کے قریب صوبے وسائل اور معدنیات سے مالا مال ہوتے ہیں۔ نئے صوبوں کے قیام کے بعد ان وسائل کی تقسیم پر تنازعات بڑھ سکتے ہیں، جبکہ بیرونی اثرات اور اسمگلنگ کے خدشات بھی زیادہ ہوں گے۔

یہ تمام پہلو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگرچہ نئے صوبے عوامی سہولت اور نمائندگی کے لحاظ سے فائدہ مند ہو سکتے ہیں، لیکن قومی سلامتی اور یکجہتی کے پہلو سے یہ ایک حساس معاملہ ہے۔

عوامی سطح پر ممکنہ فوائد

نئے صوبوں کے قیام کے ساتھ ساتھ عوام کو چند نمایاں فوائد بھی مل سکتے ہیں:

بہتر انتظامی سہولتیں: چھوٹے صوبے ہونے کی صورت میں حکومت عوام کے قریب ہوتی ہے اور مسائل کے حل میں تیزی آتی ہے۔

وسائل کی منصفانہ تقسیم: بڑے صوبوں کے اندر پسماندہ علاقے اکثر نظر انداز رہ جاتے ہیں۔ نئے صوبے یا مؤثر بلدیاتی نظام کی بدولت وسائل براہِ راست مقامی سطح پر خرچ ہوں گے۔

سیاسی شراکت داری اور روزگار: جب اختیارات حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک منتقل ہوں تو عوام کو زیادہ نمائندگی اور روزگار کے مواقع ملتے ہیں، جس سے مقامی معیشت کو سہارا ملتا ہے۔

اصل سوال

یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ نئے صوبے بنانے کے ساتھ انتظامی سہولتیں اور عوامی نمائندگی میں اضافہ ہوگا۔ مگر پاکستان جیسے حساس جغرافیائی محلِ وقوع والے ملک میں اس عمل کے قومی سلامتی، یکجہتی اور دفاعی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی قیادت اس فیصلے کو صرف انتخابی نعرہ بنائے گی یا پھر ایک جامع حکمتِ عملی کے ساتھ مقامی حکومتوں کو حقیقی معنوں میں بااختیار کرے گی؟

پنجاب میں نیا بلدیاتی قانون ایک نیا ڈھانچہ ضرور فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے نتائج کا انحصار اسی پر ہے کہ اختیارات واقعی نچلی سطح تک منتقل ہوتے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ عمل صرف سیاسی فائدے تک محدود رہا تو عوام کی محرومی مزید بڑھے گی۔

بلدیاتی حکومت جمہوریت کی اصل بنیاد ہے۔ جب بھی اسے مضبوط کیا گیا، عوام کو ریلیف ملا اور جب بھی کمزور کیا گیا، محرومیاں بڑھیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس قانون کو محض ایک رسمی کارروائی نہ بنائے بلکہ عوام کو حقیقی معنوں میں بااختیار بنانے کا ذریعہ بنائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.