پاکستان کرکٹ بورڈ نے اگست 2025 میں کھلاڑیوں کے معاوضوں میں تازہ اضافہ کیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس سال کیٹیگری A مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے، جبکہ پچھلے سال اس کی تنخواہ تقریباً 65 لاکھ 70 ہزار روپے ماہانہ (45 لاکھ بنیادی + 20.7 لاکھ آئی سی سی شیئر) تھی۔ یہ وہ تنخواہ تھی جو بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی جیسے کھلاڑی وصول کرتے رہے۔
نئے معاوضے (2025–26 کنٹریکٹ کے مطابق)
کیٹیگری B: اب بھی لگ بھگ 45.5 لاکھ روپے ماہانہ
کیٹیگری C: 20 لاکھ سے بڑھا کر 25 لاکھ روپے ماہانہ
کیٹیگری D: 12 لاکھ سے بڑھا کر 15 لاکھ روپے ماہانہ
یعنی ایک D کیٹیگری کا کھلاڑی، چاہے میدان میں ہو یا باہر بیٹھا ہو، کم از کم 15 لاکھ روپے ماہانہ وصول کرے گا۔
دوسری طرف…
پاکستان میں کم از کم اجرت صرف 37 ہزار روپے ماہانہ ہے۔
ایک مزدور دن رات سخت مشقت کے باوجود اسی تنخواہ پر گزارا کرتا ہے۔
ایک استاد جو قوم کے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، اوسطاً 40 تا 60 ہزار روپے ماہانہ پاتا ہے۔
ایک پولیس اہلکار جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمت کرتا ہے لیکن تنخواہ 45 تا 55 ہزار روپے۔
ایک ڈاکٹر سرکاری اسپتال میں مریضوں کی جان بچاتا ہے، لیکن اسے اوسطاً 70 ہزار روپے ماہانہ ملتا ہے۔
ایک صحافی جو معاشرے کی آنکھ اور زبان ہے، زیادہ تر اداروں میں 25 تا 50 ہزار روپے پر گزارا کرتا ہے۔
یہاں مزدور، استاد، پولیس اہلکار اور ڈاکٹر دن رات کی محنت کے باوجود غربت کی لکیر کے قریب ہیں، مگر ایک کرکٹر ۔۔۔خواہ وہ کھیل رہا ہو یا بینچ پر بیٹھا ہو۔۔۔ کروڑوں کا مالک بن رہا ہے۔
یہ تضاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں وسائل کی تقسیم میں بڑی ناانصافی ہے۔
کرکٹر کی تنخواہ کارکردگی سے قطع نظر محفوظ ہے، مگر قوم کے اصل محنت کش اور ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے طبقے اپنے بنیادی حقوق اور معاوضے کے لیے ترستے ہیں۔
ریاست کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اربوں روپے چند کھلاڑیوں پر لٹائے جا رہے ہیں، جبکہ قوم کی اکثریت غربت، بے روزگاری اور محرومی کا شکار ہے۔